اِک رفیقِ با وفا صدّیق ہیں ، صدّیق ہیں

اِک رفیقِ با وفا صدّیق ہیں ، صدّیق ہیں

پیکرِ صدق و صفا صدّیق ہیں ، صدّیق ہیں


نصِّ قُرآنی ہے شاہد جن کی عظمت پر، وہی

مرحبا صد مرحبا ! صدّیق ہیں ، صدّیق ہیں


جیشِ عُسرت کے لئے مانگا تھا جب سرکارْ نے

آپ کو سب کچھ دیا صدّیق ہیں ، صدّیق ہیں


غار میں تھی اِنتہا جن کی وفا کی مرحبا!

سانپ نے جن کو ڈسا صدّیق ہیں،صدّیق ہیں


مل گیا اعزاز یہ جن کو بحُکمِ مُصطفٰے

اب سبھی کے مقتدا صدّیق ہیں ، صدّیق ہیں


ہے رضا درکار سب کو ربِّ اکبر کی ، مگر

جن کی ربّ چاہے رضا صدّیق ہیں،صدّیق ہیں


کون ہے افضل جہاں میں،بعد نبیوں کے جلیل

برملا سب نے کہا صدّیق ہیں،صدّیق ہیں

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

مِرا جہاں میں ظُہور و خِفا مُعینی ہے

بابا ہیں ترے شاہِ عرب سیدہ زینب

مظہر کبریا غریب نواز

شاہ لاثانی کر دے کرم دی نظر

نام سن کے آگیاں سخیا تیرے در بار دا

اے مرادِ مصطفٰیؐ تجھ پر

اِسلام دے عظیم مہاری نُوں ویکھ کے

داتا فیض رساں ، گنج بخش جہاں

کیسے لڑیں گے غم سے، یہ ولولہ ملا ہے

تجھے مِل گئی اک خدائی حلیمہ