حرم سے قافلہ نکلا ہے کربلا کی طرف

’’حرم سے قافلہ نکلا ہے کربلا کی طرف‘‘

خدائے پاک کی خوشنودی و رضا کی طرف


رہی ہے عقل کو حاجت ہمیشہ راحت کی

دکھائی دے گا سدا عشق ابتلا کی طرف


بھنور میں آن گِھری ہے یہ ناؤ امّت کی

لگا کے آس کھڑی ہے یہ ناخدا کی طرف


اِدھر نفوس بہتّر اُدھر بڑا لشکر

وفا تھی خون میں شامل گئے وفا کی طرف


سخی وہ ہیں کہ سوالی جو دے صدا در پر

تو ایک پل میں لپکتے ہیں وہ سخا کی طرف


کلابِ دنیا تو سارے ہی تھے یزید کے ساتھ

مگر تھے اہلِ وفا آلِ مصطفیٰ کی طرف


ملی ہے خاکِ مدینہ اسے دوا کی طرح

جو بڑھ رہا ہے مریضِ کہن شفا کی طرف


جلیل دیدنی منظر تھا صحنِ زہرا میں

گئے تھے آلِ نبی جس گھڑی کسا کی طرف

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مشکِ مدحت

دیگر کلام

مظہرِ شان و شکوہِ مصطفیٰؐ مولیٰ علی

کس کس مقام سے تھا گزارا سر امامؑ

یا علی مرتضی مولا مشکل کشا جس پر چشم کرم آپ کی ہو گئی

شبیرِ نا مدار پہ لاکھوں سلام ہوں

ہو گیا کس سے بھرا خانہء زہرا خالی

بے سہاروں کے سہارے

جنابِ صدیق ؓکے ہماری فہم سے ارفع مقام بھی ہیں

اے بہارِ باغِ اِیماں مرحبا صد مرحبا

بوئے بہشت، زوجِ علی، دخترِ رسول

یاداں مڑ کے آئیاں آج خواجہ سرکار دیاں