ایثار کے خلوص کے پیکر تھے گل حسن

ایثار کے خلوص کے پیکر تھے گل حسن

خوشبوئے سادگی سے معطر تھے گل حسن


مینار علم و فن تھے وہ اپنی صفات میں

قامت میں روشنی کے برابر تھے گل حسن


لہجے میں ان کے قوس و قزح کی گھلا وٹیں

رنگوں کے امتزاج کا مظہر تھے گل حسن


تہذیب و آگہی کے سبق اُس زبان پر

دل کی صداقتوں سے منّور تھے گل حسن


کس منہ سے یہ کہوں کہ وہ ہم میں نہیں صبیحؔ

کیسے کہوں کہ ہم کو میسّر تھے گل حسن

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

یاروں میں شان اعلی ہے پائی ابو بکر

روح روان مصطفوی جان اولیاء

مجھے بغداد کی دیدو اجازت یا شہہ جیلاں

اک دن بڑے غرور سے کہنے لگی زمیں

نصیب سوئے ہوئے جگاؤ کہ یہ ہے صابر پیا کی محفل

خورشیدِ شجاعت کی کرن ہے مرا مختار

آئے ہر سال محرّم ، مرے اشکوں

یا خواجہ پیا تیرے در پہ بیٹھے دل کی سیج بنائے

سارے جگ میں ہو گیا چرچا منیر الدین کا

بس رہی ہے فضاؤں میں خوشبو