جب سے لبوں پہ نام جنابِ حسن کا ہے

جب سے لبوں پہ نام جنابِ حسن کا ہے

بندہ یہ شادکام جنابِ حسن کا ہے


سبطِ رسول، ابنِ علی، جانِ فاطمہ

کتنا بڑا مقام جنابِ حسن کا ہے


خوشبوئے مصطفےٰ کا یہ اعجاز دیکھیے

مہکا ہوا مشام جنابِ حسن کا ہے


تیرہ حدیثِ پاک روایت ہے آپ سے

بچپن میں یہ مقام جنابِ حسن کا ہے


چھ ماہ کا وہ دورِ خلافت بتائے گا

کیا خوب انتظام جنابِ حسن کا ہے


لاریب ہم شبیہِ رسولِ کریم ہیں

یہ وصف و احتشام جنابِ حسن کا ہے


پشتِ رسول پر کبھی دوشِ رسول پر

واللہ کیا مقام جنابِ حسن کا ہے


رضواں درِ ارم پہ یہ پوچھے تو کیا عجب

کیا یہ بشر غلام جنابِ حسن کا ہے


جھولا جھلانے آتے تھے افلاک سے ملک

کس درجہ احترام جنابِ حسن کا ہے


نانی اگر ہیں بی بی خدیجہ ہماری ماں

نانا شہِ انام جنابِ حسن کا ہے


مولا علی کے بعد خلافت کے باب میں

کِھلتا ہوا سا نام جنابِ حسن کا ہے


ورنہ کہاں شفیقؔ کہاں ان کی منقبت

یہ سارا اہتمام جنابِ حسن کا ہے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

تُم ہو اولادِ حضرت مرتضٰے یا غوثِ اعظمؒ

تیری عظمت کا ہر سمت ڈنکا بجا

حُسین و حَسن کا دِلبر علی اکبر علی اکبر

ہر سُو رواں ہَوائے خمارِ طرب ہے آج

سُنّیوں کے دل میں ہے عزّت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی

ؑرہبر کارواں حسینؑ ‘ رہر و ِبے گماں حسین

کیسے کہوں کہ چاند ہیں تارے حسینؑ ہیں

سفرِ جاں بڑی ثابت قدمی سے کاٹا

جہد و زُہدِ انبیاء گنجِ شکر بابا فریدؒ

اسلام ! تری شان، مرا مولا علی ہے