جمال حق رخ روشن کی تاب میں دیکھا

جمال حق رخ روشن کی تاب میں دیکھا

ہزار جلوؤں کا جلوہ نقاب میں دیکھا


ادھر ظہور ہوا اور ادھر ہوئے معدوم

وجود عمر رواں کیا حساب میں دیکھا


ہزاروں طالب دیدار ہیں کھڑے در پر

چھپائے بیٹھے ہیں وہ منہ نقاب میں دیکھا


تڑپتا دیکھا جو مجھ کو تو ہنس کر یوں بولے

ہمیشہ اس کو اسی اضطراب میں دیکھا


تمہارے عارض روشن کا جان جان جلوہ

جو ذرے میں ہے وہی آفتاب میں دیکھا


کوئی سرور میں ہے اور کسی کو بیہوشی

مزا یہ ساقی کے دور شراب میں دیکھا


اٹھا حجاب تعین تو کھل گئیں آنکھیں

خدا کو مرشد عالی جناب میں دیکھا


نظر نہ دیر میں آیا نہ یار کعبے میں

چھپا ہوا دل خانہ خراب میں دیکھا


نہ پوچھو پیری میں کچھ کیفیت جوانی کی

بتاؤں کیا تمہیں جو کچھ شباب میں دیکھا


مزا یہ بادہ انگور میں کہاں بیدم

جو تم نے خون جگر کی شراب میں دیکھا


مدد کو قبر میں آئیں گے حضرت وارث

جو مبتلا تجھے بیدم عذاب میں دیکھا