حجابِ عصمت

کمالِ وحدت ہے نام اس کا جمالِ وجہِ رسول بھی ہے

یہ دین و ایماں کی روح بھی ہے دلِ فروغ و اصول بھی ہے


نویدِ باغِ بہشت بھی ہے، کلیدِ بابِ قبول بھی ہے

زمیں پہ ہو تو علی کی زوجہ، فلک پہ ہو تو بتول بھی ہے


اسی سے آغاز ہے امامت یہیں رسالت کا خاتمہ ہے

نظر اٹھا کر نہ دیکھ آدمؔ، حجابِ عصمت میں فاطمہ ہے


یہ فکر مریمؔ کی شاہزادی یہ قل ہو اللہ کی شاہدہ ہے

خطا کا امکاں نہیں ہے اس میں یہ روزِ اول کی زاہدہ ہے


مباہلہ کی صفوں میں دیکھو تو حق کی پہلی مجاہدہ ہے

میں خود حفاظت کروں گا اس کی، یہ اس سے میرا معاہدہ ہے


وہ یوں کہ اوجِ مزاجِ حق کے تمام سہرے اسی کے سر ہیں

حریمِ حق کے تمام ہادی اسی کی آغوش کے ثمر ہیں


جہانِ انسانیت کی تخلیق ہم اسی کے سبب کریں گے

اسی کے دشمن کو ہم جہاں میں رہینِ رنج و تعب کریں گے


اسی کے در کے گداگروں کا سبھی فرشتے ادب کریں گے

بشر تو کیا اس کے درپہ جا کر نبیؐ اجازت طلب کریں گے


اسی کے نقشِ قدم کے ذروں کو چاند رتبے میں کب ملے گا

اسی کے سر کی ردا کے سائے کو چاندنی کا لقب ملے گا

شاعر کا نام :- محسن نقوی

کتاب کا نام :- حق ایلیا

دیگر کلام

ختم الرّسُل ہیں نُورِ نظر جانِ آمنہ

علی لج پال سوہنا ، سخی بے مثال سوہنا

ان کی صورت نور کی تفسیر تھی

یہ بات ہے تو پھر مرے تیور بھی دیکھنا

اے آہ حبیب صاحبِ قبر

عمر تیری قسمت دی گلزار مہکی ابر رحمتاں دا وسایا نبی نیں

لختِ جگرِ سرورِ دیں ؐ سیدہء پاک

کرب و بلا ہے ظلم کی اِک داستان ہے

آ دیکھ ذرا رنگِ چمن قائدِاعظمؒ

میراں شاہِ جیلانی پیر