نظر بھی مست مست ہے فضا بھی رنگ رنگ ہے

نظر بھی مست مست ہے فضا بھی رنگ رنگ ہے

دھلے دھلے ہیں ولولے نئی نئی امنگ ہے

ہوا کی موج موج میں، درود کی ترنگ ہے

جنوں کی رت کی راگنی سرِ رباب و چنگ ہے

مئے ولا کی چھاپ سے نشے میں اَنگ اَنگ ہے

ہر ایک بادہ خوار کا لباس شوخ و شنگ ہے

نہ خواہشِ نمود ہے نہ فکرِ نام و ننگ ہے


ادھر جناب شیخ کی نظر ذرا سی تنگ ہے

ادھر غرورِ فقر میں مگن کوئی ملنگ ہے

جو کہہ رہا ہے دوستو سدا مگن رہا کرو

میں بے نیازِ دہر ہوں مری طرح جیا کرو

جو دل کہے کیا کرو، کسی کی مت سنا کرو

علی علی کیا کرو علی علی کیا کرو

پلا پلا مئے ولا کہ ہم بھی میگسار ہیں


تری قسم ہے ساقیا، ازل سے بے قرار ہیں

نہ پوچھ کب سے تشنہ لب ہیں محوِ انتظار ہیں

یہ پیاس تجھ پہ قرض ہے یہ حوصلے ادھار ہیں

بہت غرور بھی نہ کر کہ میکدے ہزار ہیں

مگر جو بابِ علم ہے، ہم اس کے بادہ خوار ہیں

وہ میکدہ عجیب ہے، عجیب برگ و بار ہیں

وہیں تمام انبیا قطار در قطار ہیں


ہیں اس کے در چہاردہ مگر اصول چار ہیں

پیو تو پانچ وقت بارہ جام ہی پیا کرو

یہاں سے مئے پیو تو اس کا اجر بھی دیا کرو

ولا کی مئے تو فرض ہے یہ فرض یوں ادا کرو

علی علی کیا کرو، علی علی کیا کرو

وہ دیکھ جھومتی گھٹا کو چومتی جوانیاں

فضا میں سات رنگ کی وہ ٹوٹتی کمانیاں


ابھر رہی ہیں دجلہ و فرات کی کہانیاں

طبیعتوں میں آگئی ہیں کوثری روانیاں

کہاں یہ وقت ہے سہوں کسی کی حکمرانیاں

پلا پلا کہ میں کروں تری قصیدہ خوانیاں

تمام کائنات پر ہیں تیری مہربانیاں

فضا، گھٹا، ہوا، نشہ، سبھی تری نشانیاں

نقاب رخ اٹھا ذرا، ”وے مہربان جانیاں“


نقابِ رخ سرک چلا ہے مے کشو دعا کرو

گلِ مراد کھل رہا ہے منتیں ادا کرو

وہ میکدے کا در کھلا ہے اب یہی صدا کرو

علی علی کیا کرو، علی علی کیا کرو

پیو کہ مے کشو یہی ولایتی شراب ہے

شراب کیا ہے، انبیاء کی آبرو کا خواب ہے

یہ میکدے کا نور ہے، یہ طور کا شباب ہے


اسی کا کیف دوستو، خلاصہء کتاب ہے

یہ راس ہو تو پھر رضائے حق بھی ہمرکاب ہے

نہ راس ہو تو زندگی عذاب ہی عذاب ہے

یہ فرش پر بنی ہوئی بست بوتراب ہے

مگر فرازِ عرش پر خدا کا انتخاب ہے

اسی کے فیض سے ہر ایک دوست کامیاب ہے

مگر اسی کے غیض سے عدو کا دل کباب ہے


اسی شراب سے تو دل کو تازگی عطا کرو

یہی شراب پی کے روح کو جلا دیا کرو

بقدر ظرف دوستو یہ مئے بھی پی لیا کرو

علی علی کیا کرو، علی علی کیا کرو

پیو، غدیرِ خم کی سمت لے چلیں تمہیں ذرا

وہ آرہا ہے پھر پلٹ کے حاجیوں کا قافلہ

وہ قافلہ کہ جس کے رہنما ہیں ختمِ انبیا


یہ دوپہر کی دھوپ یہ اجاڑ دشت کی فضا

یہ آسماں زمیں کی سمت آگ پھینکتا ہوا

وہ پیاس ہے کہ حلق میں اٹک رہی ہے ہر صدا

یہ کیوں ہوائیں تھم گئی ہیں، دفعتہً یہ کیا ہوا

فضا خموش ہوگئی کہ دشت بولنے لگا

یہ کون سامنے ہوا، ٹھہر گئے ہیں مصطفیٰؐ

سنو اداس مے کشو ذرا تو حوصلہ کرو


نہ اس قدر خموشیوں میں بولتے رہا کرو

کسی کی بات بھی کبھی کبھی تو سن لیا کرو

علی علی کیا کرو، علی علی کیا کرو

ارے یہ جبرئیل ہے، مگر یہ کیوں بدل گیا؟

نہ اب وہ احترام ہے نہ ہے ادب کا سلسلہ

نہ اب خطابِ ایھا المزمل نہ انّما

نظر میں اک جلال ہے، جبیں پہ بل پڑا ہوا


نبی کو کر رہا ہے آزمائشوں میں مبتلا

وہ کہہ رہا ہے اے رسول، سن پیامِ کبریا

یہ حاجیوں کا قافلہ یہیں کہیں بٹھا ذرا

سنا تھا عرش پر جو ہم سے آج وہ انہیں سنا

ہمارے حرف حرف کو عمل کا آئینہ دکھا

اگر یہ کام رہ گیا‘ نہ تو نبی نہ میں خدا

سنا ہے تم نے مے کشو، بہت نہ غل بپا کرو


ذرا نشے کے رنگ کو مزاج سے جدا کرو

دل و دماغ و ذہن کے تمام در بھی وا کرو

علی علی کیا کرو، علی علی کیا کرو

فضا پہ اک سکوت ہے، نظر نظر خموش ہے

ہوا پہ مہر لگ گئی، شجر شجر خموش ہے

ادھر فلک بھی رک گئے، زمیں ادھر خموش ہے

وہ نبضِ شام تھم گئی، لبِ سحر خموش ہے


بجھے ہوئے ہیں بحر و و بر کہ خشک و تر خموش ہے

دمک رہی تھی جو ابھی وہ رہگذر خموش ہے

پیمبری ہے دم بخود کہ نامہ بر خموش ہے

فلک تو خیر اک طرف، بشر بشر خموش ہے

نبی کا دل دھڑک اٹھا، خدا کا گھر خموش ہے

وہ لب کشا ہوئے نبی کہ دوستو دعا کرو

جو وہ کہے وہ میں کہوں گا اور تم سنا کرو


خدا کا حکم ہے مجھے کہ تم ہی ابتدا کرو

علی علی کیا کرو، علی علی کیا کرو

یہی علی جو دلبری کے شہر کا مکین ہے

یہ ہے فلک کا سرپرست، والدِ زمین ہے

رموزِ کن کی سب امانتوں کا اک امین ہے

یہ مہر و ماہتاب کے نگر کا مہ جبین ہے

یہ رازدار و آشنائے رمزِ ماؤ طین ہے


خدا کا نور جس کا حسن ہے یہ وہ حسین ہے

یہ میرا ہم نفس بھی ہے یہ میرا ہم نشین ہے

زمین و آسماں کی خلق میں یہ بہترین ہے

سنو سنو کہ آج سے یہ میرا جانشین ہے

یہ حکم ہے کہ آج سے اسی کی اقتدا کرو

جو مشکلیں پڑیں تو اس کے در سے التجا کرو

سنو سنو کہ ہر جگہ یہی سبق دیا کرو


علی علی کیا کرو، علی علی کیا کرو

فلک سنیں ملک سنیں، زمیں کا ہر بشر سنے

فضائے خشک و تر سنے، ہوائے بحر و بر سنے

ہر ایک قصر، جھونپڑی ہر ایک بام و در سنے

چرند بھی، پرند بھی، حجر سنے شجر سنے

اجاڑ جنگلوں میں ہر طرح کا جانور سنے

سمندروں کی تہہ میں سیپیاں سنیں گہر سنے


تمام انبیا، ولی، وصی، قطب، نظر سنے

ہر ایک ماں سنے اسے ‘ پدر سنے پسر سنے

نبی کے ہاتھ میں علی کا ہاتھ دیکھ کر سنے

اسی علی کو آج سے مرا وصی کہا کرو

یہ ہے وسیلہء خدا اگر خدا خدا کرو

مری بجائے اس سے عمر بھر مدد لیا کرو

علی علی کیا کرو، علی علی کیا کرو


علی وقارِ انبیاء، علی دلِ پیمبری

علی پہ آ کے ختم ہے یہ جلوۂ سخنوری

علی ولی نہیں فقط کرے ہے اولیا گری

علی کے دم سے سرخرو ہے قنبری کہ بوذری

علی نے کم سنی میں بھی دکھائی ہے وہ صفدری

کہ ختم ہو کے رہ گئی جہاں میں رسم اژدری

علی کے آگے ہیچ ہیں نبی کے اور لشکری


کہاں احد سے بھاگنا کہاں جلالِ حیدری

جنابِ شیخ آپ نے بھی منصفی عجب کری

علی کے دشمنوں کا زور دیکھ تو لیا کرو

کبھی کبھی تو عدل پر بھی فیصلہ دیا کرو

جنابِ شیخ بغضِ مرتضیٰ میں مت جیا کرو

علی علی کیا کرو، علی علی کیا کرو

علی ہے کون تم غدیرِ خم پہ آکے دیکھ لو


علی کو مشکلوں کے وقت آزما کے دیکھ لو

اسی میں رنگ ڈھنگ ہیں کل انبیاء کے دیکھ لو

یہ کون در گرا رہا ہے مسکرا کے دیکھ لو

کہاں پہ ختم سلسلے ہیں صوفیا کے دیکھ لو

ہیں کون رازداں جہاں میں کبریا کے دیکھ لو

علی کو تم مقامِ حق سے بھی گرا کے دیکھ لو

اسی میں ہی ملیں گے حوصلے خدا کے دیکھ لو


بروزِ حشر خم جبینِ مرتضیٰ کے دیکھ لو

علی کے دشمنو حسد کی آگ میں جلا کرو

سنے گا کون حشر میں، ہزار التجا کرو

کہا نہ تھا یہ ہم نے اس مرض کی کچھ دوا کرو

علی علی کیا کرو، علی علی کیا کرو

شاعر کا نام :- محسن نقوی

کتاب کا نام :- حق ایلیا

دیگر کلام

مرے دل میں سمائی ہے عقیدت غوثِ اعظم کی

آفتابِ روئے احمدؐ کی درخشندہ کرن

کیسے موت کا ہنگام دیکھئے

نہیں خوش بخت محتاجانِ عالم میں کوئی ہم سا

ؓماں کے حیدر، باپ کےزید اور محمدﷺ کے علی

داتا فیض رساں ، گنج بخش جہاں

علیؑ تحریرِ نوری ہے علی مذکورِ مولیٰ ہے

قادری گھر کے نشاں تھے حضرت آلِ عبا

عظمتوں کا نشاں سیدہ عائشہ

میں تو پنجتن کا غلام ہوں