سلام اے گلبدن شہیدو

سلام اے گلبدن شہیدو


سلام اے دشتِ بے اماں کے ستم رسیدہ بہتّرو


سلام تم پر کہ دین کی آبرو تمہی ہو


محمد مصطفیؐ، علیؑ، فاطمہؑ حسن مجتبیؑ کے آگے فراز سر، سرخرو تمہی ہو


تمہی نے باطل، جبر کے ہولناک عفریت کو پچھاڑا


تمہی نے تاریکیوں میں اپنے لہو سے روشن دیے جلائے


تمہی نے چٹیل زمیں کو اپنے لہو سے سینچا


تمہی نے دشتِ بلا میں صبر و رضا کے کتنے چمن کھلائے


تمہی نے عزمِ رسا سے اپنے طلسمِ باطل کو توڑ ڈالا


وہ ایک منظر بھی تم نے دیکھا


کہ اصغرِ شیر خوار کی پیاس کو ستم گر کے ناوکِ نیم کش نے سینچا


تمہی نے عون و محمد و قاسم و علی کے جوان لاشے تڑپتے دیکھے


تمہی نے عباس کے کٹے بازوؤں کو دیکھا


تمہارے خیمے بھی جل رہے تھے


تمھاری عفت مآب مائیں، تمہاری عصمت مآب بہنیں تمہاری معصوم بیٹیاں بھی


اسیر ہو کر یزید کے روبرو گئی تھیں


میں سوچتا ہوں کہ


تم پہ افتاد جب پڑی تھی


تو میں کہاں تھا ؟


تمہاری ناموس کی طرف جب نگاہ اٹھی تھی دشمنوں کی


تو میں کہاں تھا ؟


حسین پیکر، گلاب چہرے، محبتوں کے نصاب چہرے


جو خاک و خوں میں اٹے ہوئے تھے


تو میں کہاں تھا؟


یہ مجھ پہ لازم تھا


اس مصیبت میں اپنی جاں تم پہ وار دیتا


تمہارے دشمن سے جنگ کرتا،


علم شجاعت کے، حریت کے بلند کرتا


مگر مجھے مصلحت نے مارا


یہ میرے بارے میں ہی مؤرخ نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ میرا دل بھی انہی


بہتر دلوں کے ہمراہ دھڑک رہا تھا


مگر


مرے ہاتھ، میری تلوار میرے بازو ۔۔۔ حسینیت کے خلاف اٹھے


میں مصلحت کا شکار ہو کر یزید کی فوج میں کھڑا تھا


میں اپنی قسمت کو پیٹتا ہوں


کہ میں کہاں تھا۔۔۔۔۔؟

کتاب کا نام :- چراغ

دیگر کلام

مجھا پیر نے پیشوا غوثِ اعظم

عارفِ حق، زُبدہء اہلِ نظر

دیدنی ہے جلوہ دربارِ عبدُالمطّلِب

آئیں جب خاتونِ جنت اپنے گھر

میرے آقا دیں گواہی جس کی ارفع شان کی

بانوانِ ملکِ عفّت امہات المومنین

مرے خواب میں آ بھی جا غوثِ اعظم

شبیر دے نال دا اے

مثالی ہے جہاں میں زندگی فاروقِ اعظم کی

بڑا گھمنڈ ، تفاخر ، غرور اور تمکین