سن سن مرا پیغام سن
ہر بات پر یوں سر نہ دھن
اپنی قبائے فکر پر
کلیاں سجا کانٹے نہ چن
حیدر بقا باقی فنا
ریشم پہن کھدر نہ بن
اک بار پی جامِ ولا
تجھ پر سدا برسے گا ہن
کچھ سوچ تخلیقات پر
اے صاحب فکر و سخن
بنتا ہے جب پیکر کوئی
کہتا ہے کون اس وقت کن
افکار کا سونا بنا
الفاظ کی روئی نہ دھن
اس پر میرا ایمان ہے
آتا ہے مجھ کو ایک گن
مولا علی مشکل کشا
جس کو لیا خالق نے چن
ہاں اے عدوئے مرتضیٰ
حیدر کا تو ہمسر دکھا
جس کو خدا بندہ کہے
بندے کہیں جس کو خدا
حق ایلیا حق ایلیا
حق ایلیا
یہ این و آں یہ خشک و تر
یہ رنگ و بو شام و سحر
ویران ہوتی بستیاں
ہر سمت یہ آباد گھر
یہ غلغلے احساس کے
یہ ہاؤ ہو آٹھوں پہر
ہر دم جواں پیہم رواں
دھرتی فلک شمس و قمر
طوفاں، سمندر، آب جو
ہیرے، صدف، موتی، گہر
رستے مسافر قافلے
منزل قدم گردِ سفر
رنگِ فضا، سنگِ صدا
کروبیاں، جن و بشر
جو کچھ بھی ہے کونین میں
مولا کی ہے خیراتِ در
سب کچھ اسی کے فیض سے
سب کا وہی ہے چارہ گر
جب اس کا در بجنے لگا
سارا جہاں سجنے لگا
قرآن میں پڑھ ہل اتیٰ
صلے علیٰ صلے علیٰ
حق ایلیا، حق ایلیا
حق ایلیا
اے خطہء ارضِ عرب
کر یاد تو تیرہ رجب
انوارِ کعبہ در نبی
ہم شکلِ یزداں کے سبب
خالق کے گھر اترے بشر
ہوتا ہے یوں دنیا میں کب؟
بت بھی اسے سجدہ کریں
لوگو یہ ہے بندہ عجب
اوصاف مثلِ کبریا
سیرت میں بھی اعلیٰ نسب
جب تک نہ دیں احمد زباں
اس وقت تک کھولے نہ لب
اس بندۂ رب کے لیے
کہتا ہے خود بندوں کا رب
اس کی رضا میری رضا
اس کا غضب میرا غضب
میرے نبی کا آسرا
کوئی نہیں اس کے سوا
اب تو بھی ہو وقفِ دعا
حق ایلیا حق ایلیا
حق ایلیا
جھولے میں اک طفلِ حسیں
سویا ہوا ہے نازنیں
بنتِ اسد کا لاڈلا
عالم کا تنہا مہ جبیں
جھک جھک کے دیکھے آسماں
رک رک کے پہچانے زمیں
دہکا ہے رنگِ لعلِ لب
مہکی ہے زلفِ عنبریں
آنکھیں گلابی جھیل ہیں
چہرہ رخِ دین مبیں
اژدر کی پھنکاریں سنو
ٹھہرو ہوئی آہٹ کہیں
پھیلا عدوئے مرتضیٰ
آیا جو جھولے کے قریں
اٹھا وہ دستِ کبریا
اژدر ہوا ٹکڑے نہیں
عالم پہ سکتہ چھا گیا
ہر شخص ہے سہما ہوا
بوجہل کو کہنا پڑا
حق ایلیا، حق ایلیا
حق ایلیا
ہجرت کی شامِ پر خطر
بھائی کی چادر اوڑھ کر
سویا ہے کتنے چین سے
جاں دادۂ خیر البشر
دیکھا خمارِ خواب میں
منہ چومنے آئی سحر
اعداء کے گھیرے میں مکاں
دشمن کے قبضے میں ہے گھر
منظر سے ہے ظاہر ابھی
تیغوں سے برسیں گے شرر
لیکن یہ منظر چھوڑ دو
آؤ ذرا دیکھیں ادھر
پیغمبری ہے مطمئن
بستر پہ ہے شیرِ ببر
لپٹا ہے اپنی اصل سے
شاخِ شجاعت کا ثمر
اس سمت خوف و حزن سے
رویا نبیؐ کا ہم سفر
سرورؐ کو کچھ یاد آگیا
کہنے لگے یوں مصطفیٰ
کیوں بے محل رونے لگا
آ تجھ پہ دم کر دوں دعا
حق ایلیا، حق ایلیا
حق ایلیا
اک اور منظر دیکھنا
اب سوئے خیبر دیکھنا
بغض و حسد کے روپ میں
مرحب کے تیور دیکھنا
ہیں سرنگوں بیٹھے ہوئے
اصحابِ سرور دیکھنا
رہ رہ کے احمد کا وہاں
اپنا مقدر دیکھنا
آیا سوارِ کہکشاں
اترا وہ حیدر دیکھنا
اک پل میں اب اڑتا ہوا
اک آہنی در دیکھنا
سہمی زمیں اوڑھے ہوئے
جبریل کے پر دیکھنا
آتا ہے کتنے ناز سے
نفسِ پیمبرؐ دیکھنا
سلمان کہتے تھے ادھر
لوگو ہنرور دیکھنا
کیسے چلی تیغِ علی
مردوں کے جوہر دیکھنا
حیدر کی مٹھی میں ذرا
مرحب کا بھی سر دیکھنا
کہتے تھے اس دم مصطفیٰ
یہ ہے پیامِ کبریا
جب بھی ہو دکھ کا سامنا
واجب ہے تم پر یہ صدا
حق ایلیا، حق ایلیا
حق ایلیا
معراج کی شب آگئی
ہر سو خموشی چھا گئی
جاگو ذرا اے مصطفیٰ
دیکھو سواری آ گئی
طے ہو چکیں سب منزلیں
روحِ امم لہرا گئی
آیا حجابِ آخری
ساری فضا چرا گئی
چپ چپ ہے حق کا نبیؐ
قسمت کہاں ٹھہرا گئی
یہ ساتھ ہے دیکھا ہوا
انگشت ہی بتلا گئی
پردے کے اندر کون ہے؟
لہجے کی رو سمجھا گئی
ابھری صدائے آشنا
عقدے کئی سلجھا گئی
پوچھا نبیؐ نے ماجرا
آئی صدائے کبریا
اے وارثِ بزم کساء
یہ کون ہے بوجھو ذرا
بولے جوابََا مصطفیٰ
حق ایلیا، حق ایلیا
حق ایلیا
یاد آگیا کچھ بر محل
سوئے غدیرِ خم بھی چل
یہ قافلہ کیوں رک گیا؟
پڑنے لگا کیسا خلل؟
اترا ہے کیوں روح الامیں ؟
کیوں تھم گیا ہر ایک پل ؟
پالان کے منبر پہ کیوں ؟
ابھری اذاں اے دل سنبھل
کہتا ہے کون اس دشت میں
حی علیٰ خیر العمل
سن لے زبانِ نور سے
توحید کی تازہ غزل
وہ دے رہے ہیں مصطفیٰ
پیغامِ رب لم یزل
حیدر ہے میرا جانشیں
حیدر مری محنت کا پھل
یہ محورِ ارض و سما
نبیوں کا یہ عقدہ کشا
آدم کا پہلا مدعا
نوحِ نجی کا آسرا
یعقوب کے دل کی دعا
یہ حسنِ یوسف کی بقا
یہ ابنِ مریم کی شفا
یہ صدرِ بزمِ اتقیاء
یہ قاطعِ ظلم و وبا
یہ منزلِ حق آشنا
یہ بندۂ غائب نما
یہ آدمی کا ارتقا
یہ فصل گل موج صبا
یہ ساقیِ حوضِ ولا
یہ ماہ و انجم کی ضیاء
یہ دشمنِ حق کی قضا
یہ سرِ حق کی ابتداء
یہ رازدارِ انما
یہ حوصلوں کی انتہا
یہ صبر میں ڈھالا ہوا
یہ موت کا پالا ہوا
یہ خلد کا سلطاں سدا
یہ دافعِ قحط و وبا
یہ شافعِ روزِ جزا
یہ جنگ میں کہسار سا
یہ آئنہ اعمال کا
یہ سو مرض کی اک دوا
یہ کشتیوں کا ناخدا
یہ سازِ حق سوزِ نوا
یہ مرکزِ حسنِ وفا
یہ رازِ نطق تحتِ با
یہ لختِ دل عمران کا
ہر اک کا مولا بن گیا
اب مجھ پہ بھی واجب ہوا
حق ایلیا حق ایلیا
حق ایلیا
حق ایلیا