افق شفق میں ہے ظاہر وہی لہو اب تک

افق شفق میں ہے ظاہر وہی لہو اب تک

مہک رہی ہے جہاں میں وہ مشک بو اب تک


حسین نے جو کیا تھا وہ آخری سجدہ

فضا میں گونج رہی ہے صدائے ھُو اب تک


جو خوں بہا تھا گلوئے امام سے اس دن

شفق کے روپ میں چمکے ہے وہ لہو اب تک


زمینِ مشہدِ اقدس ہنوز گریہ کناں

ہے ذرہ ذرہ میں خونِ نبی کی بو اب تک


وہ ہاتھ جس کو یزیدی اسیر کر نہ سکے

وہ ہاتھ سبطِ نبی کا ہے با وضو اب تک


وَلاتَقُوْلُوا لِمَنْ یُّقْتَلُ کی آیت سے

چلی حیات شہیداں کی گفتگو اب تک


گریباں چاک ہیں جن کے وہی تو قاتل ہیں

ہے کوفیوں کو حسینوں کی جستجو اب تک


حسینیو اٹھو کہہ دو ذرا زمانے سے

ہماری قوم میں باقی ہیں جنگجو اب تک


ہمیں نہ چھیڑو کہ ہم کربلا سے آتے ہیں

رگوں میں دوڑ رہا ہے وہی لہو اب تک


تمہیں ہے نظمی تعلق شہیدِ اعظم سے

سنبھالے بیٹھے ہو دادا کی آبرو اب تک