وہ علی عابدؔ بنی ہاشم کی غیرت کا نشاں

وہ علی عابدؔ بنی ہاشم کی غیرت کا نشاں

جس نے اپنی پشت پر لکھی وفا کی داستاں

کاروانِ آدمیت کا امیرِ کارواں

جس کے قدموں کو مسلسل چومتی تھیں بیڑیاں

کیوں زباں ترسے نہ اس کی مدح خوانی کے لیے

جس کو زینب نے چنا ہو ساربانی کے لیے


وہ امامت کے صدف کا ایک تابندہ گہر

شجرۂ حق کی مقدس شاخ کا چوتھا ثمر

جس نے بانٹیں علم کے در کی شعاعیں در بدر

مسکرا دیتا تھا جو تازہ مصیبت دیکھ کر

پتھروں کی بارشوں میں بھی جسے نیند آ گئی

لشکرِِ باطل پہ جس کی ناتوانی چھا گئی


جس کی آنکھوں میں سدا رہتی تھی اشکوں کی جھڑی

ڈھونڈتی رہتی تھی جس کو امتحانوں کی گھڑی

گھوم کر ٹوٹی سرِ باطل پہ جس کی ہتھکڑی

وہ کہ جس کے حوصلوں پر خود مصیبت رو پڑی

جس جگہ بھی اس شہنشہ کے سپاہی اڑ گئے

زندگی کیا موت کے ماتھے پہ بھی بل پڑ گئے


جو مکمل کر گیا دیں کے ادھورے کام کو

جس نے مٹی میں ملا ڈالا امیرِ شام کو

جس کی بیماری نے بخشی ہے شفا اسلام کو

جس نے جھک جھک کر کیا اونچا خدا کے نام کو

جس نے باطل کی زمیں میں بیج حق کا بو دیا

جس کی آنکھوں کے لہو نے حرفِ بیعت دھودیا


ایک قیدی اک حکومت کے مقابل ہو تو یوں

اک برہنہ پا مسافر میرِ منزل ہو تو یوں

ایک غیرت مند حق گوئی میں کامل ہو تو یوں

ایک بیٹا باپ کی مسند کے قابل ہو تو یوں

دیکھ لو بھرتے ہیں یوں بجلی خس و خاشاک میں

یوں ملاتے ہیں غرورِ آمریت خاک میں


جسم زنجیروں کی زد میں لب پہ شکرِ کردگار

بیڑیاں پاؤں میں، ہاتھوں میں زمانے کی مہار

آنکھ زنداں پر، تسلط میں رخِ لیل و نہار

قیدیوں کا ہم سفر لیکن خدائی کا وقار

جو بچھا دے اپنی زنجیروں کا بستر فرش پر

جس کے سجدوں سے زمیں ہنس دے فرازِ عرش پر


ڈھل رہے ہیں جس کے آنسو رحمتوں کے ابر میں

دفن کرتا تھا جو زندہ قاہری کو قبر میں

زلزلہ جس نے کیا پیدا وجودِ جبر میں

جس کی خاموشی ہے اک معیار اب تک صبر میں

جو حسینی صبر اب تک دین کی بنیاد ہے

انتہا اس صبر کی زینبؑ نہیں سجاد ہے

شاعر کا نام :- محسن نقوی

کتاب کا نام :- حق ایلیا

دیگر کلام

صورت اگر ہے عرض تو جوہر ہیں خد و خال

اب فرق بھائیوں کا خیالوں میں کیا ہو بند

عباس چرخ پر مہِ کامل کا نام ہے

دُخترِ برقِ رنج و محن بن کے تن ہر بدن میں اجل کی اگن گھول دے

فلک نشاں، عرش مرتبت، کہکشاں قدم، خوش نظر خدیجہؑ

وہ علی عابدؔ بنی ہاشم کی غیرت کا نشاں

نکھرے ہوئے کردار کا قرآن ہے سجادؑ

خورشیدِ شجاعت کی کرن ہے مرا مختار

کیا خاک وہ ڈریں گے لحد کے حساب سے

نہیں زبان میں طاقت خدیجتہ الکبری

عظمتوں کا نشاں سیدہ عائشہ