زمیں سے تا بہ فلک ہر طرف صدائے حسن

زمیں سے تا بہ فلک ہر طرف صدائے حسن

بُلند و برتر و بالا ہُوا ، لِوائے حسن


ازل سے میرے مقدّر میں ہے وِلائے حسن

رہے گی سایہ فگن تا ابد رِدائے حسن


وہ ذاتِ پاک ہے ابنِ علی و سِبطِ نبیؐ

مِری نگاہ کا سُرمہ ہے خاکِ پائے حسن


خدا کا شکر، مِرے دل کی زیب و زینت ہے

جمالِ مصطفویؐ، رُوئے دل کُشائے حسن


لبوں پہ زہرِ ہلاہل کا کوئی ذکر نہ تھا

اُٹھا جو درد جگر سے، تو مسکرائے حسن


یہ حال ہے مِرے دل کا بہ فیضِ شاہِؐ ہدٰی

کبھی حسین پہ قُرباں، کبھی فدائے حسن


ہو کیوں نہ منزل ِ جذب و سُلوک زیرِ قدم

کہ غوثِ پاک ہیں، اولادِ با صفائے حسن


نقیبِ امن و اماں کا لقب ہُوا ، سَیِّد

فساد و فتنہ مٹانا تھا مدّعائے حسن


رہے خلیفہ پنجم وہ چھ مہینے تک

علی کے بعد حسن کو مِلی ، یہ جائے "حَسَن"


بنو اُمیّہ زَر و جاہ کے حریص اُدھر

اِدھر یہ حال ، کہ دُنیا تھی زیرِ پائے حسن


قبائے سبز، شہادت کی اک علامت تھی

شجر شجر کی زباں پر ہے ماجرائے حسن


غِنا و فقر، قدم بوس ہوگئے اُس کے

میسّر آئی جسے، دولتِ وِلائے حسن


کسی بھی شے کی کمی ہے، نہ آرزو، نہ طلب

نصیرؔ ! فضلِ خدا سے ہُوں مَیں، گدائے حسن

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

ہم وسیلے کے قائل ہیں سارے

حُسینؑ تیری ادا دے عاشق کدی کسے تے فدا نئیں ہندے

نظر نواز ہیں دل جگمگا رہے ہیں حسین

حاصلِ دو جہاں نظام الدّینؒ

اصحابِ مصطفیٰؐ دے سب نور ونڈے تارے

ترے در کا ہُوں میں منگتا معین الدین اجمیری

نہ گُل کی تمنّا نہ شوقِ چمن ہے

سر چشمہء انعام و عطا حضرتِ عثمان

وِردِ زباں ہے میرے وظیفہ علی علی

عادل عمر عظیم عمر عہد گر عمر