سرکار کی نگاہ بھی کیا لا جواب ہے

سرکار کی نگاہ بھی کیا لا جواب ہے

جس پر بھی پڑ گئی ہے وہ عزت مآب ہے


ہرایک لفظ جس کا مکمل کتاب ہے

وہ بے مثال ذاتِ رسالت مآب ہے


خوشبو سے جس کی تارِ نفس فیضیاب ہے

وہ آمنہ کا لال شگفتہ گلاب ہے


دل کی ہے آرزو یہی آنکھوں کا خواب ہے

کب دیکھئے نصیب میں رحمت کا باب ہے


گستاخِ مصطفےٰ میں عجب اضطراب ہے

میری زباں پہ ذکرِ رسالت مآب ہے


یوسف کا حسن کھائے قسم جس کے حسن کی

وہ بے مثال حسنِ رسالت مآب ہے


اک اک عمل ہے حکمِ خدا میں ڈھلا ہوا

ذاتِ نبی خدا کی مکمل کتاب ہے


ہوجائے شیریں کھاری کنواں، زخم ٹھیک ہوں

کیا خوب مصطفےٰ کے دہن کا لعاب ہے


اس دن خدا دکھائے گا شانِ محمدی

جس دن کا نام یومِ حساب و کتاب ہے


ذاتِ نبی پہ چون و چرا کی نہیں مجال

ذاتِ نبی بھی گویا خدا کی کتاب ہے


جو ذات علم و فضل کا مصدر ہے اے شفیق ؔ

امی لقب وہ ذاتِ رسالت مآب ہے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

اپنی مرضی سے کہاں نعتِ نبی کہتے ہیں

نسبت کا یہ کمال ہے خیر البشر کے ساتھ

فہم و اِدراک سے ماورا، منفرِد

جب سراپا نور کی جلوہ نمائی ہو گئی

کوثر کی بات ہو کہ شرابِ طہور کی

سرکار کی نگاہ بھی کیا لا جواب ہے

نہ چھوٹے ہاتھ سے کس کر پکڑ لے

شجر خوب صورت حجر خوب صورت

وظیفہ پڑھ کلامِ رب، کلام اعلیٰ حضرت کا

مِرے سرکار کی مدحت مِرے سرکار کی باتیں

رسولِ ہاشمی جب حشر میں تشریف لائیں گے