آہٹ ہوئی کہ آمدِ سرکار ہو گئی

آہٹ ہوئی کہ آمدِ سرکار ہو گئی

گل کھل گئے تو روح بھی سرشار ہوگئی


رخصت ہوئی جو تیرگی جگمگ ہوئی فضا

کُھل کر پھر آج بارشِ انوار ہو گئی


ہم عاصیوں کے بگڑے مقدر سنور گئے

ہم پر نگاہِ سیدِ ابرار ہو گئی


مرجھا چکا تھا غم سے مری زیست کا شجر

اس کی ہر ایک شاخ ثمر بار ہو گئی


یادِ نبی کو جب سے ہے دل میں بسا لیا

بے رنگ زندگی گل و گلزار ہو گئی


جب بھی تڑپ کے عرض کی آقا بلا یئے

پھر ناز تیری حاضری ہر بار ہوگئی

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

مری بے بسی پہ کرم کرو

(بحوالہ معراج)اور ہی کچھ ہے دو عالَم کی ہَوا آج کی رات

شبِ سیاہ میں پُرنور ماہِ تمام آیا

میں شہنشاہِ ؐ دو عالم کے پڑا ہوں

مٹتے ہیں دو عالم کے آزار مدینے میں

بھرا ہے نعت کا مضموں مرے دل سے چھلکتا ہے

مدینے کی زمیں کتنی حسیں معلوم ہوتی ہے

دونوں عالم میں ہے دن رات اُجالا تیرا

اے جلوہء رب کے نشاں نور خدائے دو جہاں

حشر میں مصطفیٰ کی شفاعت پہ