آنکھوں میں ترا شہر سمویا بھی

آنکھوں میں ترا شہر سمویا بھی بہت ہے

پر چھوڑ کے شاہا ! اُسے ،کھویا بھی بہت ہے


شاید کبھی آ جائیں وہ سپنے میں اچانک

بے تاب ، اسی آس پہ سویا بھی بہت ہے


ہر زائرِ بطحا کے یہ قدموں سے لپٹ کر

یادوں میں شہا ! آپ کی رویا بھی بہت ہے


دیتے ہیں جواب آپ ، میں سُن پاتا نہیں ہوں

اک ہار سلاموں کا پرو یا بھی بہت ہے


دھوئے گی گناہوں کو شفاعت تری آقا !

گو رو کے گنہ گار نے دھویا بھی بہت ہے


کامل نہ ہو ملاح تو کمزور سفینہ

عصیاں کے سمندر نے ڈبویا بھی بہت ہے


لائیں گے خبر وصل کی ، فُرقت کے یہ آنسُو

پلکوں کو شہا ! ہم نے بھگویا بھی بہت ہے


مٹ سکتا نہیں عشق ترا غیر کے ہاتھوں

پودا ترے عُشّاق نے بویا بھی بہت ہے


جو لوگ مدینے میں جلیل ، اُس کو ملے تھے

’’بچھڑے ہوئے لوگوں کو وہ رویا بھی بہت ہے‘‘