ابھی قدموں کو چُوما ہے ابھی چہرہ نہیں دیکھا

ابھی قدموں کو چُوما ہے ابھی چہرہ نہیں دیکھا

ابھی تک نُور کا بہتا ہوا دریا نہیں دیکھا


جہاں خوشبو کے موسم اپنی پیشانی جھکاتے ہیں

ابھی وہ چاند تک پھیلا ہوا صحرا نہیں دیکھا


مجھے معلوم کیا ؟ ہوتے ہیں کیسے پیار کے رشتے

ابھی مَیں نے کسی کو آگ میں جلتا نہیں دیکھا


ابھی غارِ حرا اور ثور کا ہے دیکھنا باقی

ابھی وہ عرش کو چھُوتا ہوا رستہ نہیں دیکھا


ابھی تو آنکھ بھی کھولی نہیں جا کر مدینے میں

ابھی کیا کیا بتاؤں میں ابھی کیا کیا نہیں دیکھا


ابھی دیکھے نہیں اس چاند کے پہلو میں دو تارے

ابھی تک آسماں کو اس طرف جھکتا نہیں دیکھا

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

سرکارِ مدینہ کے در سے اے داور محشر! کیا مانگوں

مجھ کو مہکار محسوس ہو آپؐ کی

ادب گاہِ دوعالم ہے یہاں دستک نہیں دیتے

تیری یادوں کا ہر لمحہ تازہ خوشبو جیسا ہے

جو عہد کیا تھا آقاؐ سے وہ عہد نبھانے والا ہوں

ابھی قدموں کو چُوما ہے ابھی چہرہ نہیں دیکھا

میں اکیلا کھڑا ہوں کڑی دُھوپ میں

آپؐ کی نعتیں میں لکھ لکھ کر سناؤں آپؐ کو

یہ مانا رسولوں کی اک کہکشاں ہے

دِل کے ورق ورق پہ ترا نام لکھ دیا

یہیں آنکھ انسانیت کی کھلی ہے