ابھی قدموں کو چُوما ہے ابھی چہرہ نہیں دیکھا
ابھی تک نُور کا بہتا ہوا دریا نہیں دیکھا
جہاں خوشبو کے موسم اپنی پیشانی جھکاتے ہیں
ابھی وہ چاند تک پھیلا ہوا صحرا نہیں دیکھا
مجھے معلوم کیا ؟ ہوتے ہیں کیسے پیار کے رشتے
ابھی مَیں نے کسی کو آگ میں جلتا نہیں دیکھا
ابھی غارِ حرا اور ثور کا ہے دیکھنا باقی
ابھی وہ عرش کو چھُوتا ہوا رستہ نہیں دیکھا
ابھی تو آنکھ بھی کھولی نہیں جا کر مدینے میں
ابھی کیا کیا بتاؤں میں ابھی کیا کیا نہیں دیکھا
ابھی دیکھے نہیں اس چاند کے پہلو میں دو تارے
ابھی تک آسماں کو اس طرف جھکتا نہیں دیکھا
شاعر کا نام :- انجم نیازی
کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو