اگر درود لبوں پر سجا نہیں سکتی

اگر درود لبوں پر سجا نہیں سکتی

جناں میں خلقِ خدا گھر بنا نہیں سکتی


اے آسمان! تِری محفلِ نجوم و قمر

بغیر نورِ نبی جگمگا نہیں سکتی


غلامِ احمدِ مختار ہوں مِرے آگے

سر اپنا گردش دوراں اٹھا نہیں سکتی


نبی کے نام کا طغرا لگائے بیٹھا ہوں

مصیبت اب مِرے گھر پر تو آنہیں سکتی


مدد رسول سے ہم مانگتے رہیں گے سدا

زباں ہماری کبھی لڑکھڑا نہیں سکتی


بڑھا رہا ہے خدا جب نبی کی عظمت کو

جہاں کی کوئی بھی طاقت گھٹا نہیں سکتی


سر اپنا لاکھ پٹک لے شفیقؔ یہ دنیا

مثالِ سرورِ کونین لا نہیں سکتی


کہیں تو کیا کہیں تم سے کہاں سے گزرے ہیں

’’رسول سرحدِ کون و مکاں سے گزرے ہیں‘‘


کُھلے ہیں گنبدِ بے در کے در شبِ اسریٰ

مقام اوربھی ہیں وہ جہاں سےگزرے ہیں


گزر ہمارے تخیل ہی کا نہیں ورنہ

مقام اور بھی ہیں وہ جہاں سے گزرے ہیں


مہکنے لگتے ہیں وہ بھی بدن مدینے میں

جو اُن کے کوچۂِ عنبر فشاں سے گزرے ہیں


سراپا نور تھے رفتارِ نور کیا کہنا

پلک جھپکتے ہی ہفت آسماں سے گزرے ہیں


شفیقؔ نقشِ محمدﷺ تھا جن کے دل میں رقم

ہرابتلا میں وہ حفظ و اماں سے گزرے ہیں

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

میرے سنِ شعور کی جب سے کُھلی ہے آنکھ

یاد شبِ اسرا سے جو سینہ مرا چمکا

اَفلاک سے اُونچا ہے ایوان محمد کا

چودہ سو سال پہلے جو اٹھی نظر

مجھ پہ بھی چشمِ کرم ماہِ رسالت کرنا

جنہاں فقیراں دے لج پال پیر ہوندے نیں

سارے شہروں میں ہوا افضل مدینہ آپؐ کا

در پیش ہو طیبہ کا سفر کیسا لگے گا

یا نبی سلام علیک

مُقدر کو مرے بخشی گئی رحمت کی تابانی