اغیار کا احسان اٹھایا نہیں جاتا

اغیار کا احسان اٹھایا نہیں جاتا

ہر در پہ یہ سر ہم سے جھکایا نہیں جاتا


اس دل کے مقدر میں نہیں کیف حضوری

جو دل تیری یادوں سے سجایا نہیں جاتا


قدموں میں بلا لیجئے سرکار مدینہ

اب صدمہ جدائی کا اٹھایا نہیں جاتا


احسان پہ احسان کیے جاتے ہیں سرکار

لیکن کوئی احسان جتایا نہیں جاتا


ہر ایک کی قسمت میں کہاں جام حضوری

کم ظرف کو یہ جام پلایا نہیں جاتا


آتے ہیں وہی جن کو بلائیں شہ والا

ہر ایک کو محفل میں بلایا نہیں جاتا


دربان اٹھائیں گے اگر در سے کہوں گا

لاچار ہوں سر مجھ سے اٹھایا نہیں جاتا


ہو جاتا ہے اشکوں سے عیاں درد محبت

میں لاکھ چھپاتا ہوں، چھپایا نہیں جاتا


یاد آتے ہیں رہ رہ کے مدینے کے مناظر

طیبہ کا سفر مجھ سے بھلایا نہیں جاتا


سرکار پہنچتے ہیں وہاں پر بھی نیازی

جس جا کسی ہمدرد کا سایہ نہیں جاتا

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

فلک پہ موجود چاند کو

اے شہنشاہِ مدینہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام

نہ پل صراط نہ محشر کے دن سے ڈرتا ہے

ترے باغی ترے شاتم بشر اچھے نہیں لگتے

جو مجھے چاہیے سب کا سب چاہیے

وہ معلّم وہ اُمیّ لقب آگیا

خدا کے حسن کا پُر نور آئینہ کیا ہے

غمِ دنیا سے فارغ زند گی محسوس ہوتی ہے

ہر لب پر ہے ذکر یہ پیہم

آپ کے جیسا خوش جمال کہاں