اک جاں نواز خوشبو محسوس کر رہا ہوں

اک جاں نواز خوشبو محسوس کر رہا ہوں

شاید میں چلتے چلتے روضے تک آگیا ہوں


پھُولوں کی طرح میری سانسیں مہک رہی ہیں

اور آنسوؤں کے موتی میں نذر کر رہا ہوں


شرمِ خطا سے میرا ماتھا عرق عرق ہے

اور خوف سے سزا کے خود بھی لرز رہا ہوں


د ل بھی لرز رہا ہے ‘ میں بھی لرز رہا ہوں

جیسے میں اپنے آقاؐ کے سامنے کھڑا ہوں


پاسِ ادب سے میں نے ہونٹوں کو سی لیا ہے

شائستہء حرم ہوں ‘ آداب آشنا ہوں


اب دے رہی ہیں آنکھیں دوہرا سہارا مجھ کو

جلوے بھی روبرو ہیں سجدے بھی کر رہا ہوں


اشکوں سے ہو رہی ہے اب میرے ترجمانی

اشکوں ہی کی زبانی فریاد کر رہا ہوں


یہ خواب دیکھتا ہوں اکثر میں جاگتے ہیں

روضے کے سامنے ہوں اور نعت پڑھ رہا ہوں


صد شکر اک تسلسل قائم ہے زندگی میں

اک نعت کہہ چکا ہوں ‘ اک نعت کہہ رہا ہوں


جو کچھ بھی مانگنا ہے ‘ اس در پہ جا کے مانگو

وہ در بہت بڑا ہے جس دَر کا میں گدا ہوں


طیبہ کے سب گدا گر مجھ سے گلے ملے ہیں

مجھ کو خبر نہیں تھی میں اس قدر بڑا ہوں

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

عشقِ شہِۂ بطحا جو بڑھا اور زیادہ

بڑی کریم تری ذات یا رسول اللہ

غبارِ طیبہ سے چہرے کو صاف کرتی ہے

ابتداء حضور ہیںانتہا حضور ہیں

یوں تو ہر دَور مہکتی ہوئی نیند یں لایا

آیا غلام شاہِ دنیٰ کی نگاہ میں

ایہ نگری کملی والے دی ایتھوں ملدا چین قرار میاں

ہوئی ہے خِلقتِ انسان بندگی کے لئے

سردارِ قوم سرورِ عالم حضورؐ ہیں

جلوہ گر حضورؐ ہو گئے