عَجب کرم شہِ والا تبار کرتے ہیں
کہ نا اُمیدوں کو اُمید وار کرتے ہیں
جما کے دل میں صفیں حسرت و تمنّا کی
نگاہِ لطف کا ہم انتظار کرتے ہیں
مجھے فسردگئ بخت کا اَلم کیا ہو
وہ ایک دَم میں خزاں کو بہار کرتے ہیں
اشارہ کردو تو بادِ خلاف کے جھونکے
ابھی ہمارے سفِینے کو پار کرتے ہیں
تمہارے در کے گداؤں کی شان عالی ہے
وہ جس کو چاہتے ہیں تاجدار کرتے ہیں
تمام خلق کو منظور ہے رضا جِن کی
رضا حضور کی وہ اختیار کرتے ہیں
بنائی پشت نہ کعبہ کی ان کے گھر کی طرف
جنھیں خبر ہے وہ ایسا وقار کرتے ہیں
تمہارے ہجر کے صدموں کی تاب کِس کو ہے
یہ چوبِ خشک کو بھی بے قرار کرتے ہیں
حسنؔ کی جان ہو اس وسعتِ کرم پہ نثار
جو دم میں آگ کو باغ و بہار کرتے ہیں
شاعر کا نام :- مولانا حسن رضا