عجب سرورِ صدا اُس کا دھیان دیتا ہے

عجب سرورِ صدا اُس کا دھیان دیتا ہے

بلال کعبے میں گویا اذان دیتا ہے


جلائے دُھوپ مجھے جب مِرے گُناہوں کی

درود اَبر کی چادر سی تان دیتا ہے


مِری طلب ہے اُسی کے کرم سے وابستہ

جو ایک وقت میں دونوں جہان دیتا ہے


زہے نصیب میّسر ہے اُس کا پیار مجھے

جو دُشمنوں کو بھی اپنے امان دیتا ہے


نشانِ پا بھی ہیں اُس کے عروج کا زینہ

زمیں نشین کو وُہ آسمان دیتا ہے


کرے شکار جو دِل کو بغیر تیروں کے

اسی کے ہاتھ میں اپنی کمان دیتا ہے


جو اپنے پیٹ سے فاقوں میں باندھ کر پتھر

ضعیف کو بھی ارادے جوان دیتا ہے


کروں جو یاد اُسے سب کثافتیں مِٹ جائیں

خیال اُس کا عقیدے کو چھان دیتا ہے


مِرے کلام کو شُہرت بھی دے رہا ہے وُہی

جو پتھروں کو مظفر زبان دیتا ہے