عالم افروزہیں کس درجہ حرا کے جلوے

عالم افروزہیں کس درجہ حرا کے جلوے

جن کےپَر تو سے اُٹھے ارض و سما کے جلوے


چہرہ زیست کی ضَوحسنِ پیمبرؐ کی جھلک

چشمِ ہستی کی ضیا بد رِ دجیٰ کےجلوے


والضحیٰ رُوئے منّور ہے تو والّلیل ہے زلف

اُن کے فیضان سے ہیں صبح و مساکے جلوے


شبِ معراج، رسولانِ سلف کے ہمراہ

دیکھے ہے سیّدِ لو لاک لما کے جلوے


لطف ہی لطف اُس رحمتِ عالم کی نظر

خیر ہی خیر ہیں شاہِؐ دوسرا کے جلوے


مجھ سیہ کار کو دیتے ہیں شفاعت کی نوید

شاہِؐ ابرار کی شب رنگ عبا کے جلوے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

توں سمجھیں معراج نوں فسانہ ترا ایہہ ناقص خیال کی اے

حیات اسوۂ سرکار میں اگر ڈھل جائے

مُقدر کو مرے بخشی گئی رحمت کی تابانی

ایسے نہ تو مچل ، کہ ادب کا مقام ہے

نظر جو آئے گا سبز گنبد عجب نگاہوں کا حال ہوگا

مدنی سب نوراں دا نور مدنی سب نوراں دا نور

آیا مہ شعبان معظّم

تو شاہِ لولاک نبیؐ جی

اَلسَّلام اے اَحمدَت صِہْر و بَرادر آمدَہ

نعت ان کی خدا کی رحمت ہے