عروجِ نوعِ بشر اقتدائے نقشِ قدم

عروجِ نوعِ بشر اقتدائے نقشِ قدم

یہ عظمتوں کا سفر ہے عطائے نقشِ قدم


جہاں بھی ظلمت و شر کی اندھیر نگری تھی

حبیبِؐ رب کے وہاں جگمگائے نقشِ قدم


خدا کے دین کی تفسیر ہے تری سیرت

کسے مجال کہ تیرے مٹائے نقشِ قدم


پڑھا درودِ براہیمؑ جھوم کر میں نے

جب ان کے آپؐ سے میں نے ملائے نقشِ قدم


ہمیں بھی سوز و ادب صدقہِ جامیؒ و رضاؒ

جو عمر بھر رہے دل سے فدائے نقشِ قدم


حضورؐ نظرِ کرم ہو مرے بھی آنگن میں

حضورؐ میں نے بھی گھر میں لگائے نقشِ قدم


جو میری روح معطر رہی درودوں سے

یہ اس لیے کہ بڑوں نے پلائے نقشِ قدم


شکیلؔ مدح سرا ہے تری عطائوں سے

قبول ہو مرے آقاؐ ثنائے نقشِ قدم

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

سامنے ہیں سیّدِ ؐ ابرار اللہ الصمَد

حضورؐ ہی کے کرم سے بنی ہے بات میری

نہ عرشِ ایمن نہ اِنِّیْ ذَاھِبٌ میں مہمانی ہے

حضور دید کی پیاسی درود خو آنکھیں

نصِ قرآن سے الفاظ چن کے

تیرے غم میں جو نہ گزرے بیکار زندگی ہے

تلاشِ تابشِ انوار ہے کہیں تو فضول

خواب میں دید کا سامان بھی ہو سکتا ہے

کرتے ہیں تمنّائیں حْب دار مدینے کی

درود ان پر جو میرا موضوعِ گفتگو ہیں