اے چارہ گرِ شوق کوئی ایسی دوا دے
جو دل سے ہر اِک غیر کی چاہت کو بھلا دے
بس دیکھ لیا دنیا کے رشتوں کا تماشہ
مخلوق سے امید کے سب دیپ بجھا دے
پاکیزہ تمنائیں بھی لاتی ہیں اُداسی
ہر ذوق ِطلب شوقِ تمنا ہی مٹا دے
کیوں نیک گمانوں کے سہارے پہ جئیں ہیں
ان سارے فریبوں کو سُراغوں کو ہٹادے
دیکھے یا نہ دیکھے یہ تو محبوب کا حق ہے
نہ تو آہ و فغاں کر نہ ہی غیروں کو گِلا دے
دے لذتِ دیدار کی بیہوشی میں وہ ہوش
جو ہستی کی تعریف و تعین کو گنوا دے
اِک میں ہوں فقط تو ہو اور عالم ہو ہو
اے حُسنِ ازل سارے حجابات اُٹھا دے
ناسوت و ملاکوت و جبرُوت کے احوال
لاھوتی و حاہوتی دوائل میں ملا دے
میں خود بھی خود اپنے سے پھر ڈھونڈ نہ پاؤں
یوں آتشِ سوزاں سے میری راکھ جلا دے
ہوں تیرے حجابات کی دہلیز پہ کب سے
اِک بار ذرا دیکھ لے اِک پردہ ہٹادے
ہے روح کو ہر لمحہ تیرے وصل کی اُمید
آ زیست کی شب کو تو کبھی صبح بنا دے
سو بار بلایا تجھے سو بار ستایا
تو بھی تو کبھی رات کو مل چھپ کے ندا دے
خود دیکھ لے تو سویا ہے میں جاگ رہا ہوں
تو بھی تو کبھی میری وفاؤں کا صلہ دے
بس ایک ہی صورت ہے ادھر اُن کی نظر کی
جز اُن کے ہر اک یاد ہر اک بات بھلا دے
کیوں بھوک سی اٹھتی ہے دلِ زار سے طاہر
اس بستی ِ ویراں کے خس و خاشاک جلادے
شاعر کا نام :- طاہر القادری