بادہء عشق نبی پی کے بھی پیاسیں نہ گئیں

بادہء عشق نبی پی کے بھی پیاسیں نہ گئیں

دل کبھی سیر نہ پایا کبھی آنکھیں نہ بھریں


کوئی حیرت نہیں اس بے سر و سامانی پر

خوش ہوں اس پر کہ مری رات کی آہیں نہ گئیں


شوق بے تاب مگر پاس ادب تھا مانع

سامنے ائے تو بوسے کو نگاہیں نہ اٹھیں


کوئی سینے سے مرے کان لگا کر تو سنے

تھم گئی سانس مگر دل کی صدائیں نہ رکیں


کیسے کیسے نہ صنم خانے نظر سے گزرے

جز تیرے اور کسی سے مری آنکھیں نہ لڑیں


امتحاں کو ترے اٹھے تھے خدایانِ سخن

جب ترے سامنے آئے تو زبانیں نہ کھلیں


وقت کا سیل بہا لے نہ گیا کس کس کو

پر ترے پاؤں کے تلووں کی لکیریں نہ مٹیں


موجہء وقت نے کس کس کے کیے گل نہ چراغ

ترے ہاتھوں کی جلائی ہوئی شمعیں نہ بجھیں


کتنے گلشن ہوئے تبدیل بیابانوں میں

ترے قرباں ترے گلشن کی بہاریں نہ لٹیں


ہائے وہ عہدِ رسالت کی بہاریں اعظم

سامنے بیٹھ کے سرکار کی باتیں نہ سنیں

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

ہے دو جہاں میں محمدؐ کے نُور کی رونق

کوئی حسین شاہ کے جواب میں، نہیں نہیں

اس خوش نصیب شخص کو رب کا سلام ہے

مرے نبیؐ نے درِ خدا پر سرِ خدائی جھکا دیا ہے

سجدہ گاہِ قلبِ مومن آستانِ مصطفیٰﷺ

اکھاں وچہ اتھرو نہیں رُکدے درداں نے گھیرا پایا اے

جس نے اُن کا جمال دیکھا ہے

یہ میری آنکھ ہوئی اشکبار تیرےؐ لیے

کیویں کعبے توں نظراں ہٹاواں

دل میں مدینے جانے کی بے قراریاں ہیں