بارھویں آئی ہے گویا کہ بہار آئی ہے
رب کے محبوب کے آنے کی خبر لائی ہے
جس کے صدقے میں معطر ہوئے مشک و عنبر
دل مراکب سے اسی زلف کی شیدائی ہے
کون سمجھے گا بھلا ذاتِ محمد کے رموز
ان کی ہستی تو ازل سے ہی معمّائی ہے
مردہ قوموں میں نئی جان نئی روح بھری
ہاں یہی تو مرے آقا کی مسیحائی ہے
حبِّ احمد میں ہے صدیق سا جذبہ لازم
یوں تو ہر لب پہ ہی آقائی و مولائی ہے
رب کے بندے بھی ہیں محبوب بھی پیغمبر بھی
ان کے ہر روپ میں تخلیق کی زیبائی ہے
دلِ بیمار کو ہو موت کا کیا خوف بھلا
زندگی بخش وہ طیبہ کی ہوا آئی ہے
کیوں نہ ہو وقف زباں ذکرِ شہِ طیبہ میں
زندگی ان کی بدولت ہمیں مل پائی ہے
ذکرِ احمد سے جسے چڑھتا ہو زوروں کا بخار
ایسے مردود کی شیطاں سے شناسائی ہے
آج جو شخص بھی اسلام کو کہتا ہے برا
دل کا اندھا ہے وہ اور عقل کا سودائی ہے
آج کے جلسے میں موجود جو سنی ہے یہاں
انشاء اللہ وہ جنت میں مرا بھائی ہے
مجھ کو اجداد سے ورثے میں ملا ہے یہ قلم
نعت کہنا بھی تو پیشہ مرا آبائی ہے
صفِ محشر میں جہاں سوکھے ہوں اوروں کے گلے
آقا فرمائیں کہ نظمی مرا شیدائی ہے
ارضِ جنت میں بھلا اس کو سکوں کیسے ملے
قلبِ نظمی تو مدینہ کا تمنائی ہے