بڑے ادب سے جھکا کے نظریں
درود پڑھنا سلام کہنا
مدینے کے زائرو ہماری
عقیدتوں کے پیام کہنا
ہمیں بھی اب تو بلا ہی لیجے
وہ سبز گنبد دکھا ہی دیجے
سنہری جالی پہ حاضری کو
ترس رہے ہیں غلام کہنا
ہو سخت گرمی یا سرد موسم
یا بارشوں کی لگی ہو رم جھم
سجا کے محفل پکارتے ہیں
حضورِ والاؐ کا نام کہنا
ابھی ہے اندازِ بے نیازی
کبھی تو ہوگی کرم نوازی
ترستے جیون کا دن گزارا
سروں پہ پہنچی ہے شام کہنا
کریم آقاؐ مدینے والے
عطا ہوں تسنیم کے پیالے
عجم کے کچھ بے قرار شہری
ہنوز ہیں تشنہ کام کہنا
لبوں پہ ہے تشنگی کا پہرا
ازل سے پیاسا ہے دل کا صحرا
ہمارے ساقی تو آپؐ ہی ہیں
عطا ہو کوثر کا جام کہنا
اگر گریں تو سہارا دینا
بھنور میں ہوں تو کنارا دینا
ہمیں شفاعت کا آسرا ہے
شفیعِ خیر الانامؐ کہنا
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- صراطِ خلد