بے خود کئے دیتے ہیں انداز حجابانہ

بے خود کئے دیتے ہیں انداز حجابانہ

آ دل میں تجھے رکھ لوں اے جلوۂ جانانہ


اتنا تو کرم کرنا اے چشم کریمانہ

جب جان لبوں پر ہو تم سامنے آ جانا


کیوں آنکھ ملائی تھی کیوں آگ لگائی تھی

اب رخ کو چھپا بیٹھے کر کے مجھے دیوانہ


زاہد میرے قسمت میں سجدے ہیں اسی در کے

چھوٹا ہے نہ چھوٹے گا سنگ در جاناناں


کیا لطف ہو محشر میں میں شکوے کئے جاؤں

وہ ہنس کے کہے جائیں دیوانہ ہے دیوانہ


ساقی تیرے آتے ہی یہ جوش ہے مستی کا

شنے پر گرا شیشہ پیمانے پہ پیمانہ


معلوم نہیں بیدم میں کون ہوں اور کیا ہوں

یوں اپنوں میں اپنا ہوں بیگانوں میں بیگانہ

شاعر کا نام :- بیدم شاہ وارثی

کتاب کا نام :- کلام بیدم

دیگر کلام

نعت کہنے کا سلیقہ بے ادب لہجہ نہ ہو

میرا مرکزِ طواف آپؐ کا حرم

دو جگ دا سردار ہے سوہنا

ذکر نبی دا کردیاں رہنا چنگا لگدا اے

رس گئے نے میتھوں ہاسے جاواں میں کیڑے پاسے

مِرے تم خواب میںآؤ مِرے گھر روشنی ہوگی

سمندر کے کنارے چل رہا تھا

خداوندِ جہاں جب خود ہے پیارا تیری صورت کا

حیاتِ دل کا ذریعہ حضور کا مداح

روز محشر سایہ گستر ہے جودامان رسولﷺ