چار سُو رحمتوں کے اجالے ہوئے بزمِ کونین کے پیشوا آگئے
ذرے افلاک سی باتیں کرنے لگے مصطفےٰ آگئے مصطفےٰ آگئے
غم کے مارے ہوئے مسکرانے لگے، ظلمتوں کے مکیں جگمگانے لگے
بے کسوں کے مقدر ٹھکانے لگے سب کے محسن حبیبِ خدا آگئے
حضرتِ مُوسےٰ جن کو ترستے رہے ابنِ مریم بھی جن کی خبر دے گئے
پہلے آئے ہوئے جن کے پیچھے کھڑے آج وہ خاتم الانبیاء آگئے
بے زبانوں کو طرزِ صدا بخش دی فانی انسانیت کو بقا بخش دی
دشمنِ جاں کی ہر اک خطا بخش دی، بن کے رحمت شفیع الوریٰ آگئے
شب گزیدہ کو نور سحر دے دیا کور دیدہ کو ذوقِ نظر دے دیا
بے نوا کی دُعا کو اثر دے دیا ساری مخلوق کا آسرا آگئے
ذکر کیسے کروں وصفِ سرکار کا کیا بیاں ہو سماں ان کے دربار کا
دل ظہوریؔ بنا مطلع انوار کا جب تصور میں وہ دلربا آگئے