چھِڑ جائے جس گھڑی شہِؐ کون و مکاں کی بات

چھِڑ جائے جس گھڑی شہِؐ کون و مکاں کی بات

پڑھیئے دُرود،چھوڑئیے سُود و زیاں کی بات


آتی ہے یُوں لبوں پہ شہِؐ انس و جاں کی بات

جیسے کہ مُنہ زمیں کا ہو اور آسماں کی بات


رُودادِ غم بیان کیے جارہا ہُوں مَیں

وہ سُن رہے ہیں میرے دلِ بے زباں کی بات


باضابطہ نمودِ سحر روک دی گئی

جب تک کہ طے ہوئی نہ بِلالی اذاں کی بات


بادِ صبا! نہ چھیڑ مجھے اُن کی یاد میں

کیسی بہار، کِس کا چمن، کیا خزاں کی بات


ہر اشک ایک رمز ہے، ہر آہ ایک راز

پوچھے نہ کوئی اُن کے مِرے درمیاں کی بات


نعت اُن کے آستاں پہ پڑھوں جھُوم جھُوم کر

یارب! وہیں پہ جا کے کہوں، ہے جہاں کی بات


میں یُوں تو کج کلاہوں کے دربار میں بہت

اُن میں کہاں سے آئے ترے آستاں کی بات


شہرِ نبیؐ کی یاد نے تڑپا دیا ہمیں

تم نے نصیرؔ! آج سُنا دی کہاں کی بات

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

سب سے حسیں محبوبِ خدا

ذرّے ذرّے پہ چھایا ہوا نُور ہے،میرے میٹھے مدینے کی کیا بات ہے

نُور لمحات میں اب عشق سویرا ہوگا

یاد جدوں آئی طیبا دی

تیری بڑی اچی سرکار سوہنیا

محتاج اگر ہیں تو اُسی در کی نگاہیں

غلاموں سلاموں کے نغمے سناؤ کہ دنیا میں خیر الوریٰ آگئے ہیں

رشکِ صد عرش ہے جو آج وہ قبہ دیکھو

نبی کے نام سے جاگی ہے روشنی دل سے

جس کا دل منبعِ حُبِ شہِ والا ہوگا