دفن جو صدیوں تلے ہے وہ خزانہ دے دے

دفن جو صدیوں تلے ہے وہ خزانہ دے دے

ایک لمحے کو مجھے اپنا زمانہ دے دے


چھاپ دے اپنے خد و خال مری آنکھوں پر

پھر رہائش کے لیے آئِنہ خانہ دے دے


اَور کُچھ تُجھ سے نہیں مانگتا میرے آقاؐ

نارسائی کو زیارت کا بہانہ دے دے


مَوت جب آئے مجھے کاش ترے شہر میں آئے

خاکِ بطحا سے بھی کہہ دے کہ ٹھکانہ دے دے


زندگی جنگ کا میدان نظر آتی ہے

میری ہر سانس کو آہنگِ ترانہ دے دے


اپنے ہاتھوں ہی پریشان ہے اُمّت تیری

اُس کے اُلجھے ہُوئے حالات کو شانہ دے دے


اپنے ماضی سے مظفّر کو ندامت تو نہ ہو

اس کے اِمروز کو فردائے یگانہ دے دے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

چمن چمن ہے بہار تجھؐ سے

اے صاحبِ الطاف و کرم ابرِ خطا پوش

ہے سدا فتح و ظفر شہرِ مدینہ کی طرف

آپ کی نگری ہے فردوسِ بریں میرے لیے

سورج چن ستارے امبر، دھرتی چار چوفیرا

بے شک نواز سکتے ہیں مجھ کو بھی خلد سے

کِھلا گئی ہے بہر سُو نبیؐ کی طبعِ نفیس

دمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئے

فلک سے اک روشنی زمیں پر اتر رہی ہے

مدینے کا یا رَبّ دِکھا راستہ