درِ مصطفےٰ پہ جس دم، دمِ بےخودی میں پہونچے

درِ مصطفےٰ پہ جس دم، دمِ بےخودی میں پہونچے

تو لگا کہ جیسے ہم بھی حدِ زندگی میں پہونچے


وہی حال تھا ہمارا، وہی رنگ تھا ہمارا

کہ اندھیروں سے اچانک کوئی روشنی میں پہونچے


وہ مدینے والی گلیاں، کھلیں جن میں دل کی کلیاں

کبھی اِس گلی سے نکلے، کبھی اُس گلی میں پہونچے

شاعر کا نام :- اختر لکھنوی

کتاب کا نام :- حضورﷺ

دیگر کلام

جس ویلے ایناں اکھیاں نوں روون دا قرینہ آ جاندا

دو جہاں میں سلامتی آئی

یہ دنیا ایک سمندر ہے مگر ساحِل مدینہ ہے

ماہِ تاباں تو ہوا مہرِ عجم ماہِ عرب

پردہ رُخِ اَنور سے جو اُٹھا شبِ معراج

میٹھے مدینے میں بلا، اے آخری نبی

حضور کی جستجو کریں گے

مجھ سے مری خطاؤں کی لذّت نہ پوچھیے

جب ان کی چشمِ کرم مائلِ کرم ہوگی

سیراب تجلّی میں مرے ترسے