گُلوں سے دل کی زمینوں کو بھردیا تو نے
ضمیر تیرہ کو گلنارکردیا تو نے
ہوائے تازہ سے مہکا دیا زمانے کو
مسافروں کو یہ برگِ سفر دیا تو نے
شبِ سیاہ مسلّط تھی اس پہ مدّت سے
مری زمیں کو پیامِ سحر دیا تو نے
عُبور کر کے خلا و ملا کی پہنائی
عجب تصّورِ فتح و ظفر دیا تو نے
سُجھا کے نکتہ خَیّرُ الْاُ مُورِ اَ وْ سَطُہَا
مجھے توازنِ فِکر و نظر دیا تو نے
برنگِ شمع جلے اور نظر کو ٹھنڈک دے
دلِ بشر کو مزاجِ قمر دیا تو نے
غلام کیوں نہ تری عظمتوں کے گُن گائیں
جِنھیں تصّرفِ ہر خشک و تر دیا تو نے
فقیر کیوں نہ عطاؤں کے تذکرے چھیڑیں
سوال سے بھی جنھیں پیشتر دیا تو نے
رہیں گے جس کی حلاوت سے جسم و جاں سر شار
نخیلِ طبع کو ایسا ثمردیا تو نے
شاعر کا نام :- حفیظ تائب
کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب