گزری جدھر جدھر سے سواری حضور کی

گزری جدھر جدھر سے سواری حضور کی

تھی کیفیت وہیں وہیں کیف و سرور کی


روشن ہیں جو فلک پہ ستاروں کے قمقمے

پھیلی ہوئی ہے روشنی آقا کے نور کی


جلوہ فگن ہیں روضۂ اطہر کی اوٹ میں

لیکن خبر وہ رکھتے ہیں نزدیک و دور کی


ہے ذکر کیا چھڑا میرے آقا کے نور کا

نورانیت میں ڈھل گئی محفل حضورؐ کی


رحمت کی بھیک دو گے بس اتنی سی آس پر

ڈالی سجا کے لایا ہوں جرم و قصور کی


اللہ رے یہ عظمت دربار مصطفیٰ

گردن جھکی ہوئی ہے ہر اک با شعور کی


جو بھی کسی نے مانگا نیازیؔ حضورؐ سے

حسن طلب کریم نے پوری ضرور کی

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

درِ نبیﷺ پر پڑا رہوں گا

بھرا ہے نعت کا مضموں مرے دل سے چھلکتا ہے

جان و دِل یارب ہو قربانِ حبیبِ کبریا

بخطِّ نور اس دَر پر لکھا ہے

درود اس پر کہ جس نے سر بلندی خاک کو بخشی

حضورؐ مجھ کو بھی بلوائیے خدا کے لئے

ہنجواں دیاں وگدیاں نہراں چوں اکھیاں نے طہارت کرلئی اے

خیر وی خیر الوریٰ وی آپ نیں

یہ ان کا کرم ان کی عنائیت ہے عطا ہے

لب پہ آقاؐ کے دعا بہرِ ستم گر دیکھ کر