گزری جدھر جدھر سے سواری حضور کی
تھی کیفیت وہیں وہیں کیف و سرور کی
روشن ہیں جو فلک پہ ستاروں کے قمقمے
پھیلی ہوئی ہے روشنی آقا کے نور کی
جلوہ فگن ہیں روضۂ اطہر کی اوٹ میں
لیکن خبر وہ رکھتے ہیں نزدیک و دور کی
ہے ذکر کیا چھڑا میرے آقا کے نور کا
نورانیت میں ڈھل گئی محفل حضورؐ کی
رحمت کی بھیک دو گے بس اتنی سی آس پر
ڈالی سجا کے لایا ہوں جرم و قصور کی
اللہ رے یہ عظمت دربار مصطفیٰ
گردن جھکی ہوئی ہے ہر اک با شعور کی
جو بھی کسی نے مانگا نیازیؔ حضورؐ سے
حسن طلب کریم نے پوری ضرور کی
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی