ہے اگر زمانے میں شہر جو کوئی دلکش

ہے اگر زمانے میں شہر جو کوئی دلکش

وہ فقط مدینہ ہے شہر واقعی دلکش


ہیچ ہے مدینے کے لالہ زار کے آگے

باغِ خلدِ رضواں ہے لاکھ دیدنی دلکش


اس لیے درِ آقاؐ سے نظر نہیں ہٹتی

جاذبِ نظر ایسا ہے درِ نبیؐ دلکش


جس کا قلب روشن ہے نورِ حُبِ سرور سے

ہے حیات اس کی ہی آج واقعی دلکش


جس کے سامنے خم ہے عظمتِ شہنشاہی

وہ درِ پیمبر کی ہے گداگری دلکش


آرزو ہے نظروں سے تو کبھی نہ اوجھل ہو

ایسی گنبدِ خضریٰ شان ہے تری دلکش


حُبِ رحمت عالم دل میں جا گزیں کر لے

چاہتا ہے گر اپنی طرزِ زندگی دلکش


آمدِ پیمبر کے فیضِ خاص کے صدقے

بے کسانِ عالم کی زیست ہوگئی دلکش


حُبِ شہ کی دولت جب مل گئی صحابہ کو

خوش نصیب کہلائے، زندگی ہوئی دلکش


اسوۂ صحابہ کو دل سے تو جو اپنا لے

پھر تو بالیقیں ہوگی عاقبت تری دلکش


مدحتِ پیمبر کے فیضِ خاص سے احسؔن

فن نکھر گیا تیرا، شاعری ہوئی دلکش