ہے جن کی خاکِ پا رُخِ مہ پر لگی ہوئی

ہے جن کی خاکِ پا رُخِ مہ پر لگی ہوئی

اُن کی لگن ہے دل کو برابر لگی ہوئی


شاہِؐ اُمم لُٹائے چلے جا رہے ہیں جام

پیاسوں کی بھیڑ ہے سرِ کوثر لگی ہوئی


زہراؓ، حسینؓ اور حسنؓ کا غلام ہوں

مہر ِعلیؒ کی مُہر ہے مجھ پر لگی ہوئی


قربان اے خیالِ رُخِ مصطفیٰؐ! ترے

رونق ہے ایک ذہن کے اندر لگی ہوئی


ٹکّر نہ لے نبیؐ کی شریعت سے، ہوش کر!

دوزخ میں جھونکتی ہے، یہ ٹھوکر لگی ہوئی


میرا کفن ہو تارِ ادب سے بُنا ہُوا

ہو ساتھ التماس کی جھالر لگی ہوئی


یاد رسولؐ پاک میں ہر آنکھ تر رہے

اشکوں کی اک سبیل ہو گھر گھر لگی ہوئی


آقا! بَلائے حِرص و حَسَد سے بچائیے

پیچھے یہ سب کے ہاتھ ہے دھوکر لگی ہوئی


تکتے ہیں روز و شب جسے شمس و قمر نصیرؔ

اپنی نظر بھی ہے اُسی در پر لگی ہوئی


کہتے ہیں جس کو عشق وہ اک آگ ہے نصیرؔ

بُجھتی نہیں سُنی ہے یہ اکثر، لگی ہوئی

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

درِ حضورؐ سے در کوئی بھی بلند نہیں

اِدھر بھی نگاہِ کرم یا محمدؐ!

جو اہلِ دل ہیں، کیفیت سے کب باہَر نکلتے ہیں

شاہانِ جہاں کس لیے شرمائے ہوئے ہیں

بے مثل ہے کونین میں سرکار کا چہرا

ہے جن کی خاکِ پا رُخِ مہ پر لگی ہوئی

غلام حشر میں جب سیّد الوریٰ کے چلے

مجھ پہ بھی چشم کرم اے مِرے آقا! کرنا

ہے سراپا اُجالا ہمارا نبیؐ

میری زندگی کا تجھ سے یہ نظام چل رہا ہے

تصّور میں مرے جب چہرۂ خیرالانام آیا