ہے نظر جن عاشقوں کی کُوئے جاناں کی طرف
دیکھ سکتے ہی نہیں وہ حور و غِلماں کی طرف
ہم نے مانا پاس طیبہ کا نہیں زادِ سفر
ہے نظر ان کے کرم پر نہ کے ساماں کی طرف
جب کہا ہم نے تڑپ کر یا رسول اللہ مدد
آ گئے امداد کرنے وہ پریشاں کی طرف
ٹوٹنے والا ہے دم عاصی مدد کے واسطے
دیکھتا ہے ریشۂ مسواکِ جاناں کی طرف
کر دیئے آباد آقا آپ نے اُجڑے چمن
اک نظر یا مصطفیٰ اِس قلبِ ویراں کی طرف
کعبے کے بدرُالدُّجیٰ والا سلام اے بھائیو!
پڑھنا جب لے کرچلو گورِ غریباں کی طرف
موت کے جھٹکے یقیناً مجھ کو دے جائیں مزا
ہو دمِ آخر نظر جو رُوئے تاباں کی طرف
ہُوں غلامِ مصطفیٰ سُن لے ذرا شیطان تُو
آنکھ ہرگز نہ اٹھانا میرے ایماں کی طرف
دل نہیں لگتا ہمارا اب کسی صورت یہاں
چلیے مرزا اب مدینے کے گُلِستاں کی طرف
شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری
کتاب کا نام :- حروفِ نُور