حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملت

حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی


ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں

وفا کی جس میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی


مگر میں نذر کو اِک آبگینہ لایا ہوں

جو شے ہے اِس میں وہ جنت میں بھی نہیں ملتی


جھلکتی ہے تیری اُمت کی آبرو اِس میں

طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اِس میں

شاعر کا نام :- علامہ اقبال

دیگر کلام

رواں ہے کاروانِ رنگ و بو سرکار کے دم سے

آپؐ سے رشتہ غلامی کا سدا قائم رہے

خدایا میرے گھر میں بھی مدینے کا قمر اترے

اے زمینِ عرب ، آسمانِ ادب

فیض ہے سلطانِ ہر عالم کا جاری واہ وا

پردہ رُخِ اَنور سے جو اُٹھا شبِ معراج

تڑپ دل میں نہ آنکھوں میں نمی ہے

جنہیں عزیز ہوئی ہر نفس رضائے حضورؐ

ثنائے مُصطفٰے کرنا یہی ہے زندگی اپنی

سدا لج پال سوہنے تاجور دی خیر منگناں ہاں