حسن و جمالِ روضہء اطہر نظر میں ہے

حسن و جمالِ روضہء اطہر نظر میں ہے

منظر ابھی تلک وہ برابر نظر میں ہے


ظلماتِ گرد و پیش مجھے کیا ڈرائیں گی

صد شکر اُنؐ کا رُوئے منور نظر میں ہے


میں ہوں سیہ کار مگر روزِ حشر بھی

مہر و عطائے شافعِؐ محشر نظر میں ہے


آغاز جس کا حضرتِ حسانؓ سے ہوا

وہ کاروانِ شوق مسلسل سفر میں ہے


جو لمحہ اُنؐ کے ہجر میں مجھ پر گزر گیا

وہ اشک بن کے اب بھی مری چشمِ تر میں ہے


جو ہے جبینِ سیدِ خیر الانامؐ پر

ایسی چمک کہاں کسی لعل و گہر میں ہے


رُئے زمیں پہ اس کی نہیں ہے کوئی مثال

اشفاقؔ ایسا کیف نبیؐ کے نگر میں ہے