اِک رنگ چڑھے اُس پہ جو دربار میں آوے

اِک رنگ چڑھے اُس پہ جو دربار میں آوے

سیرت کا ملے فیض جو انوار میں آوے


پھر جشنِ بہاراں ہو شہا ! عہدِ خزاں میں

’’تُو اِس قدِ دلکش سے جو گُلزار میں آوے‘‘


وہ حُسنِ تکلّم کہ جھڑیں پُھول دہن سے

اے کاش ! نظر میری بھی گُفتار میں آوے


کہلائیں مُسلمان تو سیرت کی جھلک بھی

تھوڑی تو نظر اپنے بھی کردار میں آوے


مل جائے جسے اُسوہ ء سرکار کی نعمت

وہ کیوں نہ بھلا زمرہ ء اخیار میں آوے


سرشاری وہ دُنیا کے لذائذ میں کہاں ہے

وہ کیف جو سرکار کے تذکار میں آوے


جو چاہے جلیل اُس پہ ہو انوار کی بارش

وہ دوڑ کے پھر حیطہ ء انوار میں آوے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

راہی طیبہ دا بُرا بھاویں بھلا ہندا اے

شمع دیں کی کیسے ہو سکتی ہے مدھم روشنی

مجھ پہ بھی چشم کرم اے مِرے آقا! کرنا

کرم یہ بھی ہے مجھے پہ میرے خدا کا

کھل گئیں سرحدیں، لامکانی تہ آسماں آگئی

دل کے جہاں کا حسن دمِ مصطفیٰؐ سے ہے

باعثِ رحمتِ ایزدی نعت ہے

صَلّ اللّٰہ علیہِ وسلّم

یہ دشت یہ دریا یہ مہکتے ہوئے گلزار

لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا