اتنی کشش کہاں بھلا باغِ ارم میں ہے

اتنی کشش کہاں بھلا باغِ ارم میں ہے

جتنی حضور آپ کے نقشِ قدم میں ہے


تخلیقِ کائنات کی ترتیبِ ابجدی

محبوبِ ایزدی کی نگاہِ حشم میں ہے


لکھے فقط مناقبِ سردارِ کائنات

اے کاش جس قدر بھی سیاھی قلم میں ہے


رکھ لے وہ اپنے پاس ہی دل زائرین کے

ایسی کشش ادائی درِ محترم میں ہے


نکلیں جو ذکرِ ماہِ مدینہ پہ آنکھ سے

عزت اُن آنسوؤں کی بھی اپنے دھرم میں ہے


ہاں ہاں علاجِ گرمئِ میدانِ حشر بھی

واللّٰہْ ظلِّ چادرِ شاہِ امم میں ہے


باطل پرست یونہی نہیں خوف میں پڑے

حیدر کا رعب آج بھی حق کے علم میں ہے


حاجت ہے بس اُسی کی تبسم کو حشر میں

جو کچھ چھپا ہوا ترے ظلِّ کرم میں ہے