اذنِ طواف لے کے شہِؐ دیں پناہ سے

اذنِ طواف لے کے شہِؐ دیں پناہ سے

کعبے کو جا رہا ہوں مدینے کی راہ سے


گزروں خیال میں بھی جو اُس بارگاہ سے

ٹپکے عرق جبیں سے ندامت نگاہ سے


اک روشنی کہ نُورِ رسالت ہے جس کا نام

اُتری زمیں پہ ہوتی ہوئی مہر و ماہ سے


ماحول کی ضیا ہو کہ ہوں فکر کے چراغ

کرتے ہیں کسبِ نُور اُسی جلوہ گاہ سے


ایسی کوئی صفت جو عمل میں ڈھلی نہ ہو

منسُوب ہو سکی نہ رسالتؐ پناہ سے


حیرت کی بات ہے کہ لیا ہے خراجِ حق

اک بوریا نشیںؐ نے ہر اک کج کلاہ سے


مسلک کوئی ہو منزلِ مقصُود ایک ہے

ہر راہ جا ملی ہے مدینے کی راہ سے

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

سر رشتۂ کُن فکاں محمدؐ

اسم لکھّوں کہ اسمِ ذات لکھوں

زباں پہ جب بھی مدینے کی گفتگو آئی

گماں تھے ایسے کہ آثار تک یقیں کے نہ تھے

درُود پہلے پڑھو پھر نبیؐ کا ذِکر کرو

اذنِ طواف لے کے شہِؐ دیں پناہ سے

جو کسی کسی کا نصیب ہے

آپؐ اس طرح مری خلوتِ جاں میں آئے

صَلِّ علیٰ کِس حُسن ادا سے دعوت کا آغاز ہُوا

مرحبا ختمِ مُرسلیںؐ آئے

نبیؐ کے ذِکر سے روشن تھے بام و در میرے