جب بھی دیکھو در مصطفے پر ابر رحمت کے چھائے ہوئے ہیں
دست بستہ کھڑے ہیں ملائک انبیاء سر جھکائے ہوئے ہیں
سب کا داتا ہے تو ہم سوالی لاج رکھیو مدینے کے والی
لے کے کاسے نگاہوں کے خالی تیری محفل میں آئے ہوئے ہیں
اُن کی چوکھٹ پہ اللہ اکبر دیکھنے میں یہ آئے ہیں منظر
تاجور بھی گداؤں میں مل کر اپنے داماں بچھائے ہوئے ہیں
یہ مقدر کہاں ہر نظر کے کوئی ہو آنکھ والا تو دیکھے
جو لگے اُن کے قدموں سے ذرے اب تلک جگمگائے ہوئے ہیں
ہے یہی کشتی دل کا ساحل ہے یہی زندگانی کا حاصل
یاد محبوب رب العلیٰ کی ہم جو دل میں بسائے ہوئے ہیں
حج پال
والی دو جہاں اک نظر ہو ہم غلاموں کی جانب گزر ہو
ذکر سے تیرے شاہِ مدینہ تیری محفل سجائے ہوئے ہیں
جام کوثر کے ساقی سے پینے بادہ کش جا رہے ہیں مدینے
ہم کو پوچھا نہ اب تک کسی نے مات قسمت سے کھائے ہوئے ہیں
ہم کو کیا جو ہوا کوئی سلطاں ہم تو ہیں اس کرم پر ہی نازاں
اُن کے بن کر گدا جو نیازی بخت اپنے جگائے ہوئے ہیں
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی