جب ہے مرے آقاؐ کی عطا تازہ بتازہ

جب ہے مرے آقاؐ کی عطا تازہ بتازہ

پھرکیوں نہ ہوں گلہائے ثنا تازہ بتازہ


عشق آپ کا ہے غنچہ کشا سینہ بہ سینہ

یہ جذبہ ہے مانندِ صبا تازہ بتازہ


پاتی ہیں نمو خیر کی اقدار اسی سے

سیرت کا گلستاں ہے سدا تازہ بتازہ


ہو جس میں بسی آپ کے تذکار کی خوشبو

رہتی ہے وہی آب و ہوا تازہ بتازہ


ڈوبے کئی مہتاب تو اجڑے کئی گلزار

اک دینِ نبیؐ ہے کہ رہا تازہ بتازہ


دے گا وہی اک روز مجھے اذنِ حضوری

رکھتا ہے جو ارمان مرا تازہ بتازہ


اک حبس ہے گھیرے ہوئے ماحول کو میرے

یا رب! رہے تائب کی نوا تازہ بتازہ

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

ہر فصل میں پایا گلِ صحرا تروتازہ

نبیؐ کے حسن سے ہستی کا ہر منظر چمکتا ہے

آشنا انساں مقامِ کبریائی سے ہوا

اے ربِّ نوا ڈال دے دامن میں نئی نعت

خواب میں در کھلا حضوری کا

جب ہے مرے آقاؐ کی عطا تازہ بتازہ

نعت بھی ہے صورتِ درود

سلام اے ابنِ عبداللہ، تحیاّت اے ابو القاسم

کس طرح چاند نگر تک پہنچوں

جس کا وجود رشد و ہدیٰ کا جمال ہے

لفظ کے بس میں نہ تھا عرضِ تمنا کرنا