جب سے مَیں تیرے عشق میں گُم ہُوں
ایک قطرہ تھا بحرِ قُلزم ہُوں
نعت کِس کِس مقام تک لائی
پردہ ہُوں ساز ہُوں ترنّم ہُوں
جو مئے عشق سے لبالب ہے
مَیں وہ مینا وہ جام وہ خُم ہُوں
مُجھ میں شمعِ یقیں فروزاں کر
ورنہ مَیں تو شبِ توھّم ہُوں
تُجھ سے مُجھ میں توازنِ رفتار
مَیں کہ فطرت میں اِک تلاطم ہُوں
اُن کو تُو نے دیا ہے حُسنِ مزاج
جِن عناصر کا میں تصادم ہُوں
میرے آدابِ گفتگو تری دین
مَیں کہ شیرینئ تکلّمُ ہُوں
میرے نقّاش میرے سیرت ساز
مَیں محبّت بھرا تبسّم ہُوں
جی اُٹھی تُجھ سے خاکِ مُردہ مِری
مَیں کہ تیرا ترانہء قُم ہُوں