جب تصور تری چوکھٹ کی طرف چلتا ہے

جب تصور تری چوکھٹ کی طرف چلتا ہے

تیرگی چھٹتی ہے سینے میں دیا جلتا ہے


ذکرِ سرکارؐ سے آفات بھی ٹل جاتی ہیں

اور تسکین میں ہر رنج و الم ڈھلتا ہے


تیرا ہر لمحہ ہے پہلے سے بلندی کی طرف

’’والضحیٰ‘‘ میں اِسی رفعت کا پتا چلتا ہے


پردہ سِرکا شبِ معراج ترے جلوے کا

کون دیدار سے اب دیکھتے ہیں ٹلتا ہے


جھک کے ملتی ہے اُسے شوکتِ دُنیا لوگو

جس طرف بھی مرے آقاؐ کا گدا چلتا ہے


باندھ کر شہرِ مدینہ کا تصور آقاؐ

یہ دلِ زار بڑے ناز سے مچلتا ہے


اپنی رحمت سے کبھی دور نہ کرنا آقاؐ

اِس تصور سے غلاموں کا دِل دہلتا ہے


درِ اصحابؓ سے نقطہ یہ ملا مجھ کو شکیلؔ

عشق کامل ہے کہ تقلید میں جب ڈھلتا ہے

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

خاک پر نُورِ خُدا جسم میں ڈھل کر اُترا

ان کی رحمت کا سہارا مل گیا

زیست کے عنواں اشاراتِ رسولِؐ ہاشمی

میں بھی گداگر کہلاتا ہوں شاہِ زمن کی چوکھٹ کا

خُون پانی ہو، یہ انداز مگر، پیدا کر

جو صدقِ دل سے تمہارا غلام ہوجائے

جوان کے نقشِ قدم پر ہیں سر جھکائے ہوئے

چہرہ ہے والضحیٰ تو سخن دل پذیر ہے

جسے تمنا ہے باغِ جنت کے خوش نظاروں سے ہو کے آئے

دلوں کے انگناں چڑھی ہے رنگناں ہیں پھول مہکے بہار کے