جس سے ہے بحرِ جاں انوار کا تلاطم

جس سے ہے بحرِ جاں انوار کا تلاطم

محبوبؐ ِ کبریا کا وہ زیرِ لب تبسّم


اُس عابد ِ حرا کی ترتیل و خامشی پر

ّقرباں ہیں سب ترنم ، صدقے ہیں سب تکّلم


تھے محوِاستراحت، اِ سرا کی رات حضرتؐ

جبریلؑ کہہ رہے تھے کتنے ادب سے قُم قُم


اُڑنے کو پر جو کھولے، رہوار ِ مصطفؐےٰ نے

حیرت میں تھے فرشتے اور کائنات گُم سُم


ہم بے لیاقتوں کا سارا بھرم ہے تُم سے

ہم بےبضاعتوں کا ایک آسرا ہو بس تُم


اُترا حریم ِ دل میں تائبؔ وہ ماہِ طیبہ

پھر ہوگئے فروزاں نوکِ مژہ پہ انجم