جو بھی سرکار کا ہے دیوانہ
اس کا عالم ہوا ہے دیوانہ
جس کو دیکھو بنا ہے دیوانہ
سب سے اچھا تیرا ہے دیوانہ
غیر کی سمت دیکھتا ہی نہیں
کتنا اچھا تیرا ہے دیوانہ
کیسے بھولوں نوازشیں ان کی
مجھے کو دل بھی دیا ہے دیوانہ
تیری یادوں میں ہی مگن پایا
جب بھی تیرا ملا ہے دیوانہ
کوئی بھی با وفا نہیں دیکھا
جس قدر با وفا ہے دیوانہ
کیوں نہ جا کر کروں طواف اس کا
جس لحد پر لکھا ہے دیوانہ
چڑھ کے سولی پہ بھی اے دیوانو
کلمہ حق بولتا ہے دیوانہ
پھول مہکے ملے بہاروں کے
جس طرف بھی گیا ہے دیوانہ
دولت درد دینے والے کی
خیر ہی مانگتا ہے دیوانہ
ساتھ محفل بھی جھوم اُٹھتی ہے
جس گھڑی جھومتا ہے دیوانہ
وہی منزل کو پانے والے ہیں
جن کا بھی رہنما ہے دیوانہ
اب تو کچھ رنگ اور ہی ہو گا
بزم میں آ گیا ہے دیوانہ
جلوہ ذات میں ہی گم ہو کے
جانے کیا ڈھونڈتا ہے دیوانہ
شیخ کامل کے عشق میں کھو کر
کیا مزے لوٹتا ہے دیوانہ
ہمہ تن گوش سب کو دیکھتا ہے
جس گھڑی بولتا ہے دیوانہ
اک نیازی کو ہی نہیں دیکھا
جس کو دیکھا ترا ہے دیوانہ
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی