کعبے میں بیٹھ کے

کعبے میں بیٹھ کے

میں نے طیبہ کی گلیاں چھانیاں


ایک وجود پہ میرے

لگ گئیں دو پیشانیاں


کان دھرے آہٹ پر

پہنچ گیا چوکھٹ پر


پیاسوں کی بھیڑ لگی تھی

رحمت کے پنگھٹ پر


اُن کو ترس جو آیا

میری گھبراہٹ پر


کر دیں عطا دربانیاں

دیکھے کب دنیا نے


ایسے خواب سُہانے

مجھ پاپی کو بٹھایا


قدموں میں آقاؐ نے

طرّۂ بخت، غلامی


خطبۂ لب، شکرانے

رزقِ نظر، حیرانیاں


جتنی سانسیں لی ہیں

اُن پہ نچھاور کی ہیں


باتیں تنہائی کی

گردوں پار گئی ہیں


خلد کی دیواروں پر

حوروں نے لکھ دی ہیں


میری عشق کہانیاں

اُس در پہ جو پڑا ہوں


اپنے قد سے بڑا ہوں

عشق کی انگوٹھی میں


لعل مثال جڑا ہوں

شان فقیری دیکھو


کاسہ لیے کھڑا ہوں

اور کروں سلطانیاں


اُن پہ جو مرنا آیا

زندگی کرنا آیا


دل کے اندھے کنوئیں سے

پانی بھرنا آیا


آنسوؤں کی کشتی میں

پار اترتا آیا


ساحل ہیں طغیانیاں

احساں اُن کے تجھ پر


ہیں انمول مظفر

کندن بن کر نکلا


درد کی آگ میں جل کر

اُن کی نعت کے صدقے


گونج رہی ہیں گھر گھر

تیری خوش الحانیاں