کمی جو آنے نہ دے محبت میں ایسے درد ِ جگر کے صَدقے
جو رات دِن دید کو ترستی رہے میں اس چشمِ تر کے صدقے
بنائے کافر کو جو مُسلماں چُبھے جو دل میں مثالِ پیکاں
مَیں ایسی بانکی ادا کے قرباں مَیں ایسی ترچھی نظر کے صدقے
رُخِ مبارک ہَے روزِ روشن تو زلف مشکیں شبِ محبت
مَیں ایسے دِن رات کے تصدق میں ایسی شام و سحر کے صَدقے
تِری نگاہوں کو دیکھنے والے سارے میخواربن گئے ہیں
مَیں ایسی میخواریوں کے قرباں مَیں ایسے فیضِ نظر کے صَدقے
مِری نظر میں وفا کی دُنیا تو کب کی ویران ہو چکی ہے
اسے ابھی تک خبر نہیں ہَے میں اس دلِ بیخبر کے صَدقے
جو ہو میسّر غبارِ کُوئے حبیب آنکھوں میں ڈالنے کو
تو چشمِ خورشید بھی خدا کی قسم ہو میری نظر کے صَدقے
نہ اُٹھ سکے گی تمہاری چوکھٹ سے تا قیامت جبینِ اعظم
کہ دَر ہَے قربان اس جبیں پر جبیں ہے اس سنگِ در کے صَدقے
شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی
کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی